کسی زمانے میں پیپلز پارٹی کے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ وفاق کی علامت ہے۔ اسی شعر کے دوسرے مصرعے میں بے نظیر بھٹو کو چاروں صوبوں کی زنجیر بھی کہا جاتا تھا۔
اس کی بنیادی وجہ پیپلز پارٹی کی ملک گیر سوچ تھی اور بلا امتیاز رویہ تھا۔ جس کے نتیجے میں اسے پذیرائی بھی ملک گیر ہی ملی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو سندھ کی قیادت تھی مگر برابر کی پذیرائی انہیں پنجاب میں ملی۔ فاٹا کے پشتون ہوں، ہزارہ برادری ہو یا پھر گلگت بلتستان کے باشندے سب نے پی پی کو اپنے دکھوں کے قریب پایا۔ مگر پیپلز پارٹی اب ماضی کا قصہ ہو گئی ہے۔ قومی رنگ میں رنگی ہوئی جماعت اب اگر کسی کو کہا جا سکتا ہے تو وہ پاکستان تحریک انصاف ہے۔
آپ کو کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو، مگر اپنے بیگانے سب اعتراف کریں گے کہ تحریک انصاف نے گذشتہ دس برسوں میں پوری قوم کو بلا امتیازِ رنگ و نسل اور بلا تفریقِ مذہب و مسلک جو گالیاں دی ہیں اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔
اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد خیال کیا جا رہا تھا کہ تحریک انصاف اپنی ہمہ گیر سوچ سے دستبردار ہو جائے گی۔ مگر کالی زبانیں لٹکی رہ گئیں اور تحریک انصاف نے اپنی ریت روایت کو ہر ممکن سنبھالے رکھا۔ بیسیوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں، دو مثالیں فی الحال آپ کی حضور میں رکھے دیتے ہیں۔
پہلی مثال
پاکستان تحریک انصاف کو جب حکومت ملی تو کراچی کچرے کا ڈھیر بنا ہوا تھا۔ عالمی تحقیقی اداروں کی رینکنگ میں پاکستان آلودہ ترین شہروں میں ایک قرار پاچکا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کو عوام نے اس امید پر ووٹ دیے کہ وہ صفائی کے حوالے سے درپیش اس بڑے مسئلے کا کوئی حل نکالے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تحریک انصاف کی قیادت نے منصبِ صدارت کے لیے کراچی سے تعلق رکھنے والی شخصیت کا انتخاب کیا تو ڈھارس اور بھی بندھ گئی۔ بجا طور پر کراچی سے آوازیں سنائی دینے لگیں کہ ہمارے ساتھ امتیازی سلوک ختم کیا جائے۔ عمران خان زندہ ہوں اور کہیں کسی کے ساتھ امتیازی سلوک کا سوال پیدا ہو جائے؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔
حکومت نے بروقت اقدام اٹھاتے ہوئے لاہور اور اسلام آباد کو بھی کچرے کا ڈھیر بنا دیا۔ اس کے لیے عمران خان نے ایک بڑے لیڈر کی طرح سب سے پہلے خود اپنے علاقے کو مثال کے طور پیش کیا۔ وزیراعظم ہاؤس کے پاس سے گزریں تو وزیراعظم ہاؤس کے عقب میں آپ کو کچرے کا ڈھیر پڑا نظر آئے گا۔
وزیر اعظم ہاؤس مارگلہ پہاڑیوں کے پہلو میں واقع ہے۔ اسلام آباد کے لوگ یہاں ہائکنگ کے لیے جاتے ہیں۔ مشہور زمانہ ٹریل فائیو کی پُر پیج راہیں بھی یہیں سے گزرتی ہیں۔ یہ مقام اب ہر دو قدم کے بعد کراچی کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کر رہا ہوتا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کراچی کہے کہ میرے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا ہے تو پھر میرے خیال سے یہ شہر پاؤ پاؤ والے ایٹم بموں کا مستحق ہے۔
دوسری مثال
سابقہ پاٹا یعنی سوات، دیر، چترال اور بونیر کے علاقوں میں ایک ریگولیشن ہوا کرتا تھا جسے ’ایکشن اِن ایڈ آف سول پاور ریگولیشنز‘ کہتے ہیں۔ اس ریگولیشن میں بندوقچی کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ جس شہری پر دہشت گرد ہونے کا گمان کرے، اسے لامکان پہنچا دے۔ اُس شہری کی دہشت گردی پر تصدیق کی مہر کے لیے یہ کافی تھا بندوقچی خود شہری کے خلاف بیان حلفی جمع کرا دے۔ یہی بندوقچی اگر کچھ بھی عدالت کے سامنے رکھ کر کہہ دے کہ یہ ’دہشت گرد‘ سے برآمد ہوا ہے، تو عدالت کے لیے اُس کا یہ کہا کافی ہوتا تھا۔
اگر دہشت گرد کے مامے چاچے یا دوست احباب بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش کرتے تو اسے کارِ سرکار میں مداخلت قرار دیا جاتا تھا۔ اِس ریگولیشن کے تحت بندوقچی کو ہی یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ جیسے بھی ممکن ہو مداخلت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کر کے شرپسندی کا قلع قمع کرے۔ فیض کی زبان میں یہ "تم ہی مدعی تم ہی منصف" والی کہانی تھی۔
فاٹا اور پاٹا جب پختونخوا میں ضم ہو گئے اور اوپر سے تحریک انصاف کی حکومت آ گئی تو شہریوں نے سکھ کا سانس لیا۔ انضمام کا سب سے بڑا فائدہ ہی یہ تھا کہ ان علاقوں کے شہری کسی بھی رائج قانون کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کر سکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا بلکہ نئی حکومت کے آگے بھی دُہائی دی کہ پاٹا کے علاقوں یعنی سوات، دیر، بونیر اور چترال میں اِس ریگولیشن کا استعمال سراسر امتیازی سلوک ہے۔
عمران خان حکومت میں ہوں اور کچھ علاقوں میں امتیازی سلوک کا سوال پیدا ہو جائے؟ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ امتیاز اور تفریق کے حوالے ان کی حساسیت کی سطح کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ اِس بات کی پروا بھی نہیں کی گئی کہ یہ معاملہ ابھی عدالت میں زیر بحث ہے۔ حکومت نے ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر اِس ریگولیشن کو آرڈیننس میں بدلا اور صبح ہوتے ہی ایکشن اِن ایڈ آف سول پاور آرڈیننس" کو پورے صوبے پر لاگو کر دیا۔
یعنی پختونخوا میں ایک ایسا غیر انسانی قانون جس سے صرف چند علاقوں کے لوگ استفادہ کر رہے تھے، اب پوری پختون نسل بلا امتیاز اُس کا لطف اٹھا سکے گی۔
انصاف کی ایسی برق رفتار فراہمی کے بعد بھی اگر پشتون ’دا سنگہ آزادی دہ‘ کے نعرے لگاتے ہیں تو پھر میری رائے میں پارلیمان کو اتفاق رائے کے ساتھ انہیں بنی اسرائیلیوں کی اولاد ڈیکلئیر کر دینا چاہیے۔
خدا اپنا کرم کیے جاتا ہے اور یہ ناہنجار ناشکری پہ ناشکری کیے جاتے ہیں؟ یہ تو حد ہو گئی اور بخدا بے حد ہو گئی!