صوابی کے مجسمہ ساز شاہ مدار کی ایک ہی خواہش ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ کوئی ان کے فن پارے محفوظ کر لے۔
'کوئی آئے اور میرے بنائے ہوئے مجسمے لے جا کر انہیں محفوظ کر لےتاکہ میرا فن محفوظ رہے اور پختونوں کا نام بھی روشن ہو۔کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے بعد یہ مجسمے بارش کی نظر ہو جائیں۔'
پچھتر سالہ شاہ مدار کہتے ہیں کہ یہ فن انہیں قدرتی طور پر ملا اور مجسمہ سازی سے انہیں ذہنی سکون ملتاہے۔
انہوں نے انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ بچپن سے یہ شوق رکھتے ہیں اور گاؤں میں بھیڑ بکریاں چرانے کے دوران وہ بھیڑ، بکریوں اور پرندوں کے مجسمے بناتے تھے۔
'آٹھ، دس سال کی عمر میں سکول میں داخلہ لیا تو وہاں لڑکیوں اور لڑکو ں کے مجسمے بنانا شروع کر دیے۔'
شاہ مدار کو 1965میں میٹرک کرنے کے بعد تربیلہ ڈیم میں نوکری مل گئی اور وہاں پر ایکسیئن کا مٹی سے مجسمہ بنایا، جس پر انہوں نے شاہ مدار کو سروئیر بنا دیا اور اسی عہدے پر وہ ریٹائر ہو گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ وہ مجسمہ بنانے کے لیے لکڑی کے ٹکڑے کو گھاس وغیرہ میں لپیٹ کر اس پر ایک گولا بنا لیتے ہیں، پھر خاص چکنی مٹی گوند کر اسے گولے کے اوپر چڑھا کر اس پر ہاتھ سے کام کرتے ہیں ۔
انہوں نے بتایا کہ وہ قومی ہیروز اور اپنی پسندیدہ شخصیات کے مجسمے بناتے ہیں۔ 'پاکستانی سیاست دانوں میں باچا خان اور بے نظیر بھٹو کے مجسمے بنائے ہیں۔ لوگوں کی فرمائش پر بھی مجسمے بناتا ہوں، جو وہ اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔'
شاہ مدار نےگلہ کیا کہ انہوں نے اپنے محکمے میں بہت سے افسران کا مجسمے بنائے لیکن کسی نے ان کے فن کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ 'میں جس نمائش یا مقابلے میں شریک ہوتا ہوں وہاں میرے مقابلے میں کوئی نہیں ہوتا۔'
مجسمے بنانے پر معاشرے میں لوگوں کی طرف سے تنقید یا مسائل کا سامنا کرنے کے سوال پر شاہ مدار نے کہا کہ مسئلے تو بہت ہیں، لوگ پہلے مجسمے دیکھتے ہیں پھر تنقید کرنے لگتے ہیں کہ آپ بت کیوں بناتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اکثر لوگوں کی تنقید پر اپنے مجسمے چھپا دیتے ہیں اور بعض اوقات انہیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ انہیں کہاں رکھا تھا۔ 'میرے کمرے کے مختلف حصوں میں کئی مجسمے چھپے رکھے ہیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے مجسمے فروخت نہیں کرتے البتہ کوئی مانگ لے تو بلا معاوضہ دے دیتے ہیں۔ 'لوگ انعام دیتے نہیں اور میں پیسے لیتا نہیں۔مجسمے شوق سے بناتا ہوں، پیسے کمانا میرا شوق نہیں اور نہ ہی پیساکمانا کمال ہے۔'
شاہ مدار نے بتایا کہ عمران خان نے خیبرپختونخوا میں محکمہ ثقافت کے زیراہتمام ایک پروگرام میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے پر انہیں پانچ لاکھ روپے انعام دیا تھا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ مرنے کے بعد اس مجسموں کا کیا کریں گے؟ تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ لوگ آئیں اور ان کے مجسمے لے جا کر محفوظ کر لیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ بارش سارے مجسمے برباد کر دے۔
کھیتوں میں چھپ کر مجسمے بنانے والے شاہ مدار کے اہل خانہ ان کے اس شوق کو نہیں سراہتے لیکن شاہ مدار کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ 'میں مرتے دم تک مجسمے بناتا رہوں گا کیونکہ اس کے بغیر میری زندگی ادھوری ہے۔'