پاکستان میں رواں سال چینی کے بحران کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے قریبی ساتھی جہانگیر خان ترین، وفاقی وزیر برائے فوڈ سکیورٹی خسرو بختیار کے رشتہ دار اور اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ ق کے مونس الہٰی کو اس بحران سے مالی فائدہ پہنچا۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ہفتے کو ملک میں پیدا ہونے والے آٹے اور چینی کے بحرانوں سے متعلق تحقیقاتی رپورٹیں پیش کر دیں۔
جنوری اور فروری کے دوران ملک میں چینی اور آٹے کے بحرانوں نے سر اٹھایا، جس کے باعث دونوں اجناس کی قیمتیں بڑھ گئی تھیں۔
وفاقی حکومت نے ایف آئی اے (وفاقی تحقیقاتی ایجنسی) کے ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا کی سربراہی میں دونوں اجناس کی قیمتوں میں اضافے کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقاتی کمیٹی بنائی تھی۔
کمیٹی نے 40 روز کی تحقیقات کے بعد چینی اور آٹے کے بحرانوں سے متعلق الگ الگ رپورٹیں وفاقی حکومت کے حوالے کر دیں، جو ہفتے کی شام ریلیز کر دی گئیں۔
چینی بحران
چینی کے بحران سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ تحریک انصاف کے اہم رہنما جہانگیر ترین نے سب سے زیادہ مالی فائدہ اٹھایا۔
اسی طرح وفاقی وزیر خسرو بختیار کے رشتے دار اور پنجاب میں تحریک انصاف کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (قائد اعظم) کے رہنما مونس الہٰی بھی فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رپورٹ کے مطابق جہانگیر ترین کی دو شوگر ملوں نے ایک لاکھ 22 ہزار 621 ٹن چینی برآمد کی، جس سے جہانگیر ترین کو سبسڈی کی مد میں 56 کروڑ روپے سے زیادہ کا فائدہ ہوا، جو مجموعی سبسڈی کا 22.71 فیصد بنتا ہے۔
اسی طرح مونس الہٰی کی شوگر ملوں نے حکومتی سبسڈی کی مد میں 45 کروڑ روپے سے زیادہ کمائے۔ مونس الٰہٰی کی شوگر ملیں مخدوم عمر شہریار چلاتے ہیں، جو وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار کے رشتہ دار ہیں۔
چینی کی برآمدی سبسڈی سے زیادہ فائدے اٹھانے والوں میں انڈس شوگر ملز کے غلام دستگیر لک بھی شامل ہیں، جنہوں نے مجموعی سبسڈی کا 52.50 فیصد (تقریباً 15 کروڑ روپے) کمایا۔
تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ دسمبر 2019 میں اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس میں وفاقی سیکریٹری برائے وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی نے بتایا تھا کہ ملک میں آئندہ سال گنے کی پیداوار کم ہو گی لیکن اس کے باوجود چینی کی برآمد کی اجازت دی گئی۔
تاہم رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ چینی کی برآمد سے متعلق فیصلہ کس کے دباؤ پر ہوا۔
جہانگیر ترین نے اپنے ردعمل میں کہا کہ انہیں تین سے اڑھائی ارب روپے کی سبسڈی ن لیگ کے دور حکومت میں دی گئی تھی اور اس وقت وہ حزب اختلاف میں تھے۔
Some points to note on sugar inquiry report
— Jahangir Khan Tareen (@JahangirKTareen) April 4, 2020
1..My companies exported 12.28% while my market share is 20% so less than I could Have
2.Export was on first come
First serve basis
3.Of the total Rs 3 bn subsidy rec’d Rs 2.5 Bn came when N was in power and I was in opposition pic.twitter.com/T25Cu2FT60
وفاقی وزیر برائے تحفظ خوراک اور تحقیق خسرو بختیار نے کہا کہ انہوں نے ای سی سی کے چینی سے متعلق فیصلوں کے اجلاس میں شرکت سے گریز کیا تھا اور انہوں نے ایسا ممکنہ مفادات کے ٹکراؤ کے پیش نظر کیا۔
دوسری طرف مونس الٰہی نے کہا کہ وہ رحیم یار خان شوگر مل کی انتظامیہ میں شامل نہیں بلکہ صرف اس میں شراکت دار ہیں۔
I indirectly hold shares of RYK Sugar Mills , but am not involved with management of the company. As shown in the report here RYK Mills has a 3.14% share in national export. As I welcome the report I hope people will quote this truthfully and responsibly. pic.twitter.com/JVvsJRZ3jh
— Moonis Elahi (@MoonisElahi6) April 4, 2020
آٹا بحران
تحقیقاتی رپورٹ میں صوبائی حکومتوں کو ملک میں آٹے کے بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق صوبوں میں گندم کے انتظام کا سارا طریقہ کار خرابیوں اور برائیوں سے اٹھا پڑا ہے اور گندم کی خریداری سے گوداموں میں رکھنے، آگے مہیا کرنے، پسائی اور تقسیم تک تمام مراحل پر خرابیاں ہی خرابیاں ہیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ صوبہ سندھ کا نومبر 2019 تک گندم نہ خریدنا بھی بحران کی وجہ بنا۔
رپورٹ میں پاسکو اور وفاقی وزارت فوڈ سکیورٹی اور ریسرچ کو بھی بحران کا ذمہ دار قرار دیا کیونکہ مذکورہ وزارت کے سیکریٹری نے سات اگست، 2019 میں میدے اور سوجی کی برآمد کی اجازت دی اور عین ممکن ہے کہ ان اجناس کے نام پر آٹا ملک سے باہر بھیجا گیا ہو۔