کرونا (کورونا) وائرس کی وبا آنے سے جہاں دیگر شعبوں پر اثر پڑا ہے، وہیں فنکاروں کی زندگی بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
جیسے جیسے کرونا کی وبا طوالت اختیار کرتی جارہی ہے، ہر طبقے کے مسائل ابھر کر سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ جس کا نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ عوامی سطح پر بھی ہستہ آہستہ احساس کیا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں صاحب حیثیت افراد نے دل کھول کر فنڈز اکھٹے کرنے شروع کر دیے ہیں۔
خیبرپختونخوا میں موسیقاروں اور گلوکاروں کی فلاح و بہبود کے لیے 'ہنری ٹولنہ' نامی تنظیم چلانے والے راشد خان نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کے پیش نظر لگائے گئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے مشکلات کا شکار فنکاروں کی مدد کرنے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے۔
راشد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پچھلے ایک مہینے سے جو حالات چل رہے ہیں، اس دوران کئی گلوکاروں اور موسیقاروں نے ان سے رابطہ کرکے اپنی پریشانی بتائی۔
'جس نے بھی کال کی وہ پریشان تھا اور یہی کہہ رہا تھا کہ اب تو کوئی میوزک پروگرام نہیں ہے ہمارا کیا ہوگا، گھر کا چولہا کیسے جلے گا؟ بعض لوگوں کو تو میں خود قریب سے جانتا ہوں اور مجھے خود احساس تھا کہ نہ جانے اب وہ کیا کریں گے۔'
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے بیشتر فنکار غربت کی زندگی گزار رہے ہیں، کیونکہ پشتون فنکاروں کے لیے اپنے ٹیلنٹ کا مظاہرہ کرنے کے لیے یہی ایک صوبہ ہے۔
'اردو زبان کے فنکار تو اپنے صوبے کے علاوہ دیگر صوبوں میں بھی جاسکتے ہیں لیکن پشتو زبان کے فنکاروں کے لیے اتنے مواقع نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ صورت حال فنکار طبقے کے لیے بہت کھٹن ہے۔ اسی لیے میں نے طے کیا کہ حکومت کا انتظار کرنا بے وقوفی ہوگی۔ لہذا اچھا ہوگا کہ عوام سے چندوں کی درخواست کی جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
راشد خان نے بتایا کہ انہوں نے تقریباً دس دن پہلے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے سوشل میڈیا پر لوگوں سے خیبر پختونخوا کے ہنرمندوں کی مدد کرنے کی اپیل کی، جس پر کافی ردعمل آیا۔ چند ایک نے چندہ بھی دی، جس سے 130 خاندانوں کو راشن دینے کا بندوبست ہوا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ چندہ دینے والوں میں سے ایک حاجی حبیب بھی ہیں جنہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے راشن کا پیکج بنا کر گلوکاروں اور موسیقاروں میں تقسیم کیا۔
ایک گلوکار احمد گل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگر عوام ساری ذمہ داری حکومت پر ڈال کر لاپرواہ ہو جاتے تو نادار و لاچار لوگوں کا کیا ہوتا۔
’میں خود عمر کے اس حصے میں ہوں کہ بہت عرصے سے میں فن کے شعبے پر تکیہ کیے بیٹھا ہوں۔ بچوں کی شادیاں ہو چکی ہیں اور گھر میں صرف میں اور میری شریک حیات رہتے ہیں۔ تھوڑا بھی مل جائے تو گزارہ ہو جاتا ہے۔ بیوی بچوں والوں کا زیادہ مسئلہ ہے۔ ‘
ہنری ٹولنہ کے صدر راشد خان نے مزید بتایا کہ وہ مزید فنکاروں کے خاندانوں کی بھی مدد کریں گے۔ ’میں سمجھتا ہوں کہ اسی طرح اگر ہر شخص اپنے حلقے، اپنے ارد گرد اور جاننے والوں کا خیال رکھتا جائے تو ہم اس بحران سے باآسانی نکل جائیں گے۔‘
اگرچہ وفاقی حکومت نے پاکستان کے ایک کروڑ بیس لاکھ غریب خاندانوں کے لیے 150 ارب روپے کا اعلان کیا ہے تاہم زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں یہ امداد ناکافی ہے۔ اس رقم کو حاصل کرنے کے لیے موبائل سے ایک خاص نمبر پر مطلوبہ تفصیلات فراہم کرکے رجسٹریشن کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
ایسے حالات میں جب کہ لوگوں کا گھروں سے نکلنا محال ہو گیا ہے اور ملک میں پہلے ہی خواندگی کی شرح بہت کم ہے، ایسے میں تعلیم یافتہ طبقے میں خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بہت سارے گھرانے اس پیکج کو حاصل کرنے سے رہ جائیں گے۔