افغانستان میں طالبان تحریک نے پہلی مرتبہ امریکہ پر 29 فروری کے امن معاہدے کی شدید خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا ہے۔
افغان طالبان کی جانب سے اتوار کو جاری ایک سخت بیان میں کہا گیا کہ وہ اب تک معاہدے کے پابند ہیں اور اس کے تمام مندرجات کی مکمل طور پر پاسداری کی ہے۔ ’امریکی حکام نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ امارت اسلامیہ کے جنگجوؤں نے طے شدہ سمجھوتے پر عمل کیا ہے۔‘
یہ پہلی مرتبہ ہے کہ طالبان نے امن معاہدے سے متعلق اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کیا ہے۔
تفصیلی بیان میں اسلامی تحریک کا کہنا تھا کہ امریکہ کے ساتھ 29 فروری 2020 کے معاہدے کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی توثیق کی تھی اور دنیا نے اسے سراہا اور اسے افغان تنازع کے حل کے لیے بہترین فریم ورک تصور کیا تھا۔ تاہم انہوں نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ فی الفور خود بھی اور اپنے دیگر اتحادیوں (افغان حکومت) کو بھی معاہدے کی مکمل پاسداری کے لیے کہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیان میں کہا گیا کہ افغانوں کے درمیان مذاکرات کی بابت بھی طالبان نے بات چیت کے لیے بار بار آمادگی ظاہر کی تاکہ ملک میں ایک دائمی اور پائیدار صلح تک پہنچ پائیں، لیکن ’بدقسمتی سے یہ عمل بھی مختلف بہانوں کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے۔‘ طالبان کی مراد ان کے پانچ ہزار قیدیوں کی افغان جیلوں سے رہائی ہے جس کے بعد دوحہ معاہدے کے مطابق افغانوں کے درمیان مذاکرات کا عمل شروع ہونا ہے۔
بظاہر طالبان پر دوحہ معاہدے کے بعد بھی حملے جاری رکھنے کے الزام کا جواب دیتے ہوئے اسلامی تحریک کا کہنا تھا کہ مکمل جنگ بندی کے کسی سمجھوتے پر پہنچنے سے قبل وہ دیہی و شہری علاقوں میں کابل انتظامیہ کے تمام مراکز پر حملے کر سکتے ہیں، لیکن اس کے باوجود انہوں نے ایسا نہیں کیا ہے۔ ’اب تک کابل انتظامیہ کے شہروں میں قائم مراکز پر حملے کیے اور نہ ہی بڑے فوجی مراکز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ صرف دیہی علاقوں میں ان چند چوکیوں پر حملے ہوئے، جن سے عوام کو تکلیف تھی۔ وہ بھی گذشتہ سال کی نسبت بہت کم ہیں۔‘
البتہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف اس کے مقابلے میں اپنی چارج شیٹ پیش کرتے ہوئے طالبان نے کہا کہ امریکہ اور اس کے اندرونی و بیرونی فوجی اتحادیوں نے ان کے خلاف یہ خلاف ورزیاں کی ہیں۔
۔ پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی کا عمل بلاوجہ غیرمعقول دلائل کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا ہے۔
۔ جنگی مقامات سے دور جنگجوؤں کے مراکز پر لگاتار حملے ہوئے ہیں۔
۔ عام شہری سمیت متعدد مقامات پر امریکی اور افغان افواج نے چھاپے مارے ہیں۔
۔ شہری ٹھکانوں پر ڈرون حملے اور بمباریاں ہوئی ہیں۔
۔ ہمارے زیرکنٹرول علاقوں میں پہرا دینے اور راستے پر چلنے والے عام جنگجوؤں کو ڈرون کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ (ہلمند، قندہار، فراح، قندوز، ننگرہار، پکتیا، بدخشان، بلخ اور ملک کے دیگر علاقوں میں معاہدے کی متعدد بار خلاف ورزیاں ہوئی ہیں، جن کی تفصیلات انہوں نے وقتا فوقتا امریکی چینلوں سے شیئر کی ہیں)۔
افغان طالبان نے شک کا اظہار کیا کہ اگر بقول ان کے اس قسم کی خلاف ورزیاں جاری رہیں تو اس سے بےاعتمادی کی فضا پیدا ہوگی، جو نہ صرف معاہدے کو نقصان پہنچائے گی، بلکہ ان کے جنگجوؤں کو بھی ردعمل پر مجبور کرتے ہوئے جنگی کیفیت میں اضافے کا سبب بنے گی۔
افغان طالبان کا ایک وفد افغان حکام سے ان کے قیدیوں کی رہائی کے لیے کابل میں موجود ہے لیکن ابھی تک اس عمل میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
بعض ماہرین نے اس بات ہر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ اگر طالبان کو حملوں کی اجازت تھی تو پھر ’تشدد میں کمی‘ پر زور کیا بےجا تھا۔
طالبان کے اس بیان پر اب تک امریکہ یا افغان حکومت کا ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔