'آن لائن کلاسز کے لیے لاکھوں روپے کی فیس کیوں دوں؟'

ایک طالب علم کے مطابق: 'ہمیں اپنے ٹیچرز کے آن لائن لیکچرز بالکل سمجھ نہیں آتے، اس کے باوجود بھی ہماری یونیورسٹی نے ہمیں دس اپریل تک فیس کی دوسری قسط جمع کروانے کی ڈیڈ لائن دے دی ہے۔'

کئی نجی سکولز و کالجز کی جانب سے بچوں کے والدین کو ایک یا دو نہیں بلکہ پورے تین ماہ کی فیسیں ایک ہفتے کے اندر اندر جمع کروانے کا کہا جارہا ہے۔ (تصویر: پکسا بے)

گذشتہ کچھ دنوں سے شوشل میڈیا پر ’وی ریجیکٹ آن لائن کلاسز‘ اور ’شیم آن ایچ ای سی‘ کے نام سے ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ ان ہیش ٹیگز کا استعمال کرتے ہوئے ملک بھر کے طلبہ نے غیر معیاری آن لائن کلاسز اور نجی تعلیمی اداروں کی بھاری بھرکم فیسوں کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

تاہم تصویر کا دوسرا رخ بالکل ہی مختلف ہے۔ صوبائی وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے سوموار کے روز کی گئی پریس کانفرنس میں نجی تعلیمی اداروں کو فیسوں میں کمی کرنے کا فرمان تو جاری کردیا لیکن آن لائن کلاسز کی آڑ میں نجی یونیورسٹیاں سیمسٹر بیک کرنے کی شرط پر اب بھی لاکھوں روپے کی سیمسٹر فیس لے رہی ہیں اور کئی نجی سکولز و کالجز کی جانب سے بچوں کے والدین کو ایک یا دو نہیں بلکہ پورے تین ماہ کی فیسیں ایک ہفتے کے اندر اندر جمع کروانے کا کہا جارہا ہے۔

اسی طرح کچھ روز قبل کراچی کے علاقے صدر میں قائم ناصرہ سکول کی جانب سے ایک نوٹیفیکیشن سامنے آیا جس میں سکول انتظامیہ نے یہ واضح کیا کہ پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت کے طلبہ کو بغیر امتحانات کے اگلی جماعت میں پروموٹ کردیا جائے گا لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکے گا اگر والدین مارچ کے مہینے کی فیس لیٹ کیے بغیر ایک ہفتے میں مارچ، اپریل اور مئی کی فیسیں ایک ساتھ جمع کروادیں۔


طلبہ کو آن لائن کلاسز اور فیسیں کیوں قبول نہیں؟

سوشل میڈیا پر ’وی رجیکٹ آن لائن کلاسز‘ کے نام سے ٹوئٹر ٹرینڈ شروع کرنے والے موسیٰ راجہ سے جب پوچھا گیا کہ اس ٹرینڈ کو شروع کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میں خود یو ای ٹی ٹیکسلا کا گریجویٹ ہوں اور سٹوڈنٹ لیڈر ہوں۔ پورے ملک کی یونیورسٹیوں کے طلبہ نے ہم سے رابطہ کیا اور اپنے مسائل کے حوالے سے ہمیں آگاہ کیا۔ ٹرینڈ شروع کرنے کے کچھ دیر بعد ہی اس پر ایک لاکھ سے زائد ٹویٹس ہو چکی تھیں اور زیادہ تر طلبہ کا یہی کہنا تھا کہ آج کل جب بڑے شہروں میں انٹرنیٹ ٹھیک طرح سے نہیں چل رہا تو چھوٹے شہروں اور مختلف گاؤں میں رہنے والے افراد کیسے آن لائن کلاسز لیں؟‘

 فاسٹ یونیورسٹی فیصل آباد کے کمپیوٹر سائنس ڈپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والے طلب علم عبدللہ راٹھور نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری سیمسٹر فیس لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ روپے ہے، اگر ہمیں لاکھوں روپے دے کر انتہائی غیر معیاری آن لائن لیکچرز ہی لینے ہیں تو اس سے بہتر ہے کہ ہم گوگل اور یوٹیوب پر موجود فری لیکچرز لے لیں، جن کو سمجھنا بھی آسان ہے!‘

عبدللہ کا مزید کہنا تھا کہ ’طلبہ آج کل اپنے گھروں میں محصور ہیں جہاں آن لائن کلاسز کے لیے ہر کسی کے پاس وسائل موجود نہیں۔ کسی کو لیپ ٹاپ کا مسئلہ ہے، کسی کو انٹرنیٹ کی سپیڈ کا مسئلہ آجاتا ہے جس پر ویڈیو بمشکل ہی چل پاتی ہے اور بہت سے طلبہ مالی بحران کا بھی شکار ہیں جو انٹرنیٹ پیکجز افورڈ نہیں کر سکتے۔ بہت سے طلبہ ایسے گھرانوں سے ہیں جو جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے ہیں اور انہیں گھر میں پڑھائی کا وہ ماحول نہیں مل پاتا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کراچی کے علاقے کریم آباد میں واقع آغاخان کالج میں زیر تعلیم ایک طالبہ نے ہمیں بتایا کہ ’لاک ڈاؤن کے دوران کلاسز نہ ہونے کے باوجود بھی ہم سے معمول کے مطابق فیسیں لی جارہی ہیں جبکہ ہم جون اور جولائی کے مہینے کی فیسیں پہلے سے ادا کرچکے ہیں۔ فیس میں کسی قسم کی کمی بھی نہیں کی گئی۔'

ان کا مزید کہنا تھا: 'حال ہی میں ہمیں یہ بتایا گیا کہ کالج کی جانب سے 20 اپریل سے آن لائن پریلیمینری امتحانات شروع کیے جارہے ہیں۔ اس حوالے سے کالج کی جانب سے ایک سروے بھی کیا گیا جس میں گھر میں بجلی اور انٹرنیٹ کی فراہمی کے حوالے سے سوالات کیے گئے ہیں۔ لیکن یہ ضروی تو نہیں کہ امتحان والے دن بھی گھر میں مسلسل بجلی ہو اور انٹرنیٹ بند نہ ہو اور طلبہ چیٹنگ نہ کریں۔ ہمارے علاقے میں ابھی سے لوڈ شیڈنگ شروع ہوگئی ہے اور کیبل نیٹ ہونے کے باعث اکثر و بیشتر انٹرنیٹ بند ہوجاتا ہے۔‘

یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات عامہ میں ساتویں سمیسٹر کے طالب علم بیر برگ بلوچ جو یونیورسٹی بند ہونے کے باعث اپنے گھر واپس آچکے ہیں، نے ہمیں بتایا: ’میرا تعلق بلوچستان کے جس علاقےسے ہے وہاں انٹرنیٹ کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ہم نے یونیورسٹی انتظامیہ کو یہ سمجھانے کی بہت کوشش کی۔ جو طلبہ کلاسز نہیں لے پا رہے اور اس لیے سیمسٹر کی فیس ادا نہیں کرنا چاہتے انہیں یونیورسٹی کی جانب سے فیل کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ ہماری حکومت سے ڈیمانڈ ہے کہ جب تک بلوچستان کے تمام علاقوں میں انٹرنیٹ کی فراہمی کو ممکن نہیں بنایا جاتا تب تک آن لائن کلاسز نہ دی جائیں۔‘

اسی طرح کیپیٹل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے کمپیوٹر سائنس ڈپارٹمنٹ میں زیر تعلیم ایک طالبِ علم کا کہنا تھا: ’ہمیں اپنے ٹیچرز کے آن لائن لیکچرز بالکل سمجھ نہیں آتے۔ اس کے باوجود بھی ہماری یونیورسٹی نے ہمیں دس اپریل تک فیس کی دوسری قسط جمع کروانے کی ڈیڈ لائن دے دی ہے۔ میں غیر معیاری آن لائن کلاسز کے لیے لاکھوں روپے کی فیس کیوں دوں؟‘

انتظامیہ کیا کہتی ہے؟

موجودہ مسائل کے پیشِ نظر والدین ایکشن کمیٹی کے چیئرمین محمد کاشف صابرانی کا کہنا ہے کہ ’ہم آن لائن کلاسز، امتحانات اور فیسوں کے خلاف احتجاج کرنے پر غور کر رہے ہیں۔‘

جامعات میں غیر معیاری آن لائن کلاسز اور بھاری بھرکم سیمسٹر فیسوں کے مسئلے پر ہم نے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تو ان کی ترجمان عائشہ اکرام کا کہنا تھا کہ ’جب طلبہ کو معیاری آن لائن کلاسز ملیں گی تو انہیں سیمسٹر فیس دینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔‘

ہم نے جب ایچ ای سی کی نمائندہ سے یہ جاننا چاہا کہ وہ طلبہ جنہیں انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں لیکن ان کی جامعات نے انہیں سیمسٹر فیس جمع کروانے کی ڈیڈ لائن دے دی ہے تو وہ طلبہ کیا کریں؟ اس سوال کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور صرف خاموشی اختیار کی۔

البتہ انٹرنیٹ کی فراہمی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم جامعات کو ان کی آن لائن کلاسز بہتر کرنے میں مدد کر رہے ہیں، اس کے علاوہ ہم طلبہ کو سستے داموں میں موبائل انٹرنیٹ بنڈلز فراہم کرنے کے لیے بھی موبائل آپریٹرز کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کے تمام علاقوں میں انٹرنیٹ کی فراہمی کو ممکن بنانے کے لیے بھی ہم کوششیں کر رہے ہیں۔‘

اسی طرح کراچی میں اقرا یونیورسٹی کے ترجمان سید طحٰہ بن حسن نے ہمیں بتایا کہ اقرا یونیورسٹی طلبہ سے فیس نہیں لے رہی لیکن اس کے باجود بھی اساتذہ کو ان کی تنخواہیں ادا کی جا رہی ہیں۔ 

ان کا کہنا تھا: 'اساتذہ کے لیے آن لائن کلاسز دینا آسان کام نہیں، اس لیے ہماری آئی ٹی کی ٹیم انہیں بہتر آن لائن کلاسز دینے میں مدد کر رہی ہے۔'

نجی اسکولوں میں آن لائن امتحانات اور کئی ماہ کی فیسیں ایک ساتھ لینے کے معاملے پر ہم نے آل پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن کے چیئرمین طارق شاہ سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

سندھ حکومت کی جانب سے تمام نجی سکولوں کو اپنی فیسیں 20 فیصد کم کرنے کی ہدایت جاری کی گئی لیکن چیئرمین آل سندھ پرائویٹ سکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پرائیویٹ سکولوں کی فیسوں میں کٹوتی یا کمی کا کوئی جواز نہیں۔ 'فیس منظور کرنے کا اختیار اور معین اضافہ تو قانون میں موجود ہے لیکن منظور شدہ فیس سے کم فیس لینے کا حکم دینا کسی قانون میں موجود نہیں ہے۔'
 

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس