بینائی سے محروم لنڈی کوتل کے چھ بھائی اپنے 36 افراد پر مشتمل خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے بھرپور کوشش کررہے ہیں تاہم قبائلی علاقوں میں خصوصی افراد کے لیے ٹریننگ اور ملازمت کے وسائل نہ ہونا ان کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔
اس خاندان میں سات بھائیوں میں چھ قوت بینائی سے محروم ہیں۔ کئی سال پہلے وہ اپنی موسیقی کی قابلیت کا استعمال کرتے ہوئے اپنے خاندان کے گزارے کے لیے اچھی کمائی کر پاتے تھے، تاہم دہشت گردی کے دور میں خیبر میں جب شر پسند عناصر نے ان پر دباؤ ڈالا تو انہیں اس ذریعہ معاش کو ترک کرنا پڑا۔
موسیقی چھوڑنے کے بعد اب ان بھائیوں نے اپنے گاؤں میں ایک چھوٹی دکان کھولی ہے جس کے ذریعے اپنے خاندان کا پیٹ پال رہے ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کافی نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پیروخیل سے تعلق رکھنے والے 55 سالہ بختیار خان نے بتایا: 'جب ہم موسیقی سے وابستہ تھے تو ہمیں پیسوں کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ہم اپنا سب کچھ خود چلا رہے تھے۔ لیکن جب سے ہم نے موسیقی چھوڑی ہے تب سے ہمارے مسائل بڑھ گئے ہیں۔ جب ہمیں صحت کا کوئی مسئلہ آتا ہے یا ہمارے خاندان میں کوئی بیمار ہوتا ہے تب ہمیں وہ سمبھالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔'
انہوں نے بتایا کہ اس سے قبل وہ مقامی علاقوں میں موسیقی کے پروگراموں سے دن کے تین سے چار ہزار روپے کما لیتے تھے جس سے ان کا گزارا ہو جاتا تھا، مگر اب انہیں مشکلات نے گھیرا ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حالات اتنے تنگ یہ حال ہی میں سکول نے ان کی بھائی کے بچوں کو فیس نہ جمع کروا پانے پر سکول سے نکال دیا۔
انہوں نے کہا سابقہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد انہوں نے حکومت سے درخواست کی علاقے میں معذور افراد کے سینٹر یا سکول قائم کیے جائے تاکہ وہ تربیت حاصل کر کے روزی کما سکیں، مگر اب تک ان کی درخواست سنی نہیں گئی۔