ظہیر کو ڈیٹول کی مہک پسند نہیں۔ اس جراثیم کش دوائی سے ان کا بچپن کا درد تازہ ہو جاتا تھا جب ان کی جلد پر زخم کو مرہم لگانے سے پہلے ڈیٹول سے صاف کیا جاتا تھا۔
دوائی کی کاٹ ان کی جلد سے ہوتی ہوئی ان کے گوشت تک ہی نہیں بلکہ روح میں بھی سرایت کر جاتی تھی۔آج بھی جب جراثیم کش دوائی کی تیز بو ان کے نتھنوں سے ٹکرائی تو ان کے پرانے زخم ہرے ہو گئے، دل متلایا اور بھاگ جانے کو دل کیا۔ لیکن ماموں کی بیماری کا خیال آتے ہی وہ وہیں جم گئے اور پھر ڈگماتے قدموں سے راہداری میں چلنے لگے۔
عام حالات میں انسانوں سے بھری رہنے والی ہسپتال کی راہداری خالی تھی، ہر طرف ایک سوگ کا سا سماں تھا۔ چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والی وبا جنوبی پنجاب کے اس چھوٹے سے پر سکون شہر تک پہنچ گئی تھی۔
گو کہ پاکستان میں کرونا (کورونا) وائرس سے ہونے والی اموات باقی دنیا کے مقابلے میں کم تھیں، میڈیا پر اس بیماری سے متعلق ہونے والے چرچے کی وجہ سے اس پسماندہ علاقے کے لوگوں میں بھی شدید خوف و ہراس تھا۔ یہ خوف بیماری سے بھی زیادہ مہلک اور جان لیوا تھا۔
اس خوف کے چنگل سے عام لوگ ہی نہیں پڑھے لکھے بھی محفوظ نہ تھے۔ بیرون ملک میں مقیم ظہیر کی ڈاکٹر بہن نے انہیں ہسپتال روانہ ہونے سے پہلے طویل نصیحتیں کی تھیں۔ 'ہسپتال میں وائرس کی شکل میں ہر طرف موت بکھری ہوئی ہے بہت احتیاط سے کام لینا کسی چیز کو نہ چھونا۔' ان کی بہن نے بار بار تاکید کی تھی۔ ساتھی ڈاکٹروں اور عملے کو اس بیماری کے ہاتھوں تکلیف دہ موت مرتے دیکھ کر وہ روہانسی سی ہو گئی تھیں۔
مختلف کمروں سے ہوتے آخر ظہیر ماموں تک پہنچ ہی گئے۔ وہ انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں تھے۔ عملے نے انہیں بتایا کہ ماموں کو دل کا دورہ پڑ ا تھا اور انہیں ہمسایوں نے ہسپتال پہنچایا تھا۔
دور سے ماموں کو دیکھ کر ظہیر کی تشویش گہری ہوگئی۔ ستر سالہ عباس صاحب ایک شریف النفس انسان تھے۔ ظہیر کے ساتھ ہمیشہ شفقت اور محبت سے پیش آتے تھے۔ اپنی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے وہ تو ہر بچے سے شفقت سے پیش آتے تھے۔ یہی سوچتے ہوئے ظہیر نے اپنے اردگرد نگاہ ڈالی۔ ہسپتال زیادہ تر ویران تھا۔ جو موجود تھے وہ بھی سہمے ہوئے تھے۔ انہیں وحشت ہونے لگی۔ وہاں رکنے کی بجائے انہوں نے بہتر سمجھا کہ گھر چلے جائیں اور اگلے دن ہسپتال آئیں۔
گھر پہنچے تو دیکھا والدہ نے رو رو کر آنکھیں سرخ کی ہوئی تھیں۔ وہ بار بار اس وقت کو کوس رہی تھیں جب ان کے بھائی عباس صاحب ان کے روکنے کے باجود اسلام آباد سے بہاولپور آئے۔
عباس صاحب کے بہاولپور آنے کے پیچھے ان کی اپنی وجوہات تھیں ۔ سارا بچپن اور جوانی بہاولپور میں گزارنے کے بعد ان کا اس شہر سے ایک جذباتی رشتہ تھا۔ انہوں نے بہت کوشش کی تھی کہ کسی طرح ان کی اہلیہ کا تبادلہ اسلام آباد سے بہاولپور ہوجائے۔ لیکن نہ ہوسکا۔ شہر سے انکی یہی وابستگی تھی کہ ریٹائر ہونے کے بعد بھی وہ مستقل بنیادوں پر اہلیہ کے پاس اسلام آباد شفٹ نہ ہوئے۔ وہ اسلام آباد میں اپنی اہلیہ کے پاس ہی تھے جب کرونا وائرس کی وبا پھیلی۔ دارلحکومت کے طویل لا ک ڈاؤن سے وہ گھبرا گئے۔ تنہائی سے اتنی وحشت ہوئی کہ انہوں نے سب کے منع کرنے کے باوجود کرائے پر ٹیکسی لی اور بہاولپور کا رخ کیا۔
سفر اور بے احتیاطی سے ان کا پیٹ جو پہلے ہی خراب تھا مزید بگڑ گیا۔ بہاولپور پہنچ کے وہ اپنے گھر چلے گئے۔ رات میں کسی وقت سینے میں شدید درد وا تو ہمسائے نے ہسپتال پہنچا دیا۔
ظہیر کی والدہ اسی لیے بھائی کو سفر سے روک رہیں تھیں۔ 'جو ہونا تھا ہوگیا اب کیا ہوسکتا ہے۔ ماموں آگئے ہیں اور ہسپتال میں داخل ہیں۔' وہ جلدی ٹھیک ہو جائیں گے۔ ظہیر نے اپنی والدہ کو تسلی دی۔ تیس سالہ ظہیر ہمیشہ سے اتنے بردبار نہیں تھے۔ اس ایک واقعے نے ا سے اپنی عمر سے بڑا کردیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رات گئے جب ہمسایوں نے فون کرکے ان کے گھر اطلاع دی تھی کہ عباس صاحب کو دل کا دورہ پڑا ہے اور وہ ہسپتال میں داخل ہیں، تو انہیں دھچکا لگا تھا۔ یہ خیال کہ ان کے بوڑھے ماں باپ کو ہسپتال جانا پڑے گا، ان کے لیے روح فرسا تھا کیونکہ ایک تو ہسپتال کی شہرت بیماری کے گڑھ کی تھی دوسرا عمر رسیدا افراد اس موذی مرض کے آسان شکار تھے۔
دکھ اور لاچارگی اسے اپنے اندر اترتی محسوس ہوئی۔ سوچ سوچ کر جب کوئی حل نہ ملا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ہر قیمت پر اپنے والدین کی حفاظت کریں گے اور ان کو ہسپتال نہیں جانے دیں گے۔ 'میں جاؤں گا ہسپتال امی جان۔' انہوں نے اپنی ماں کو اعتماد سے بتایا تھا۔
ہسپتال سے واپسی پر انہوں نے اسی اعتماد سے اپنے والدین کو پھر دلاسہ دیا۔ ماں باپ کو تسلی دے کر وہ بستر پر لیٹ گئے۔ سوچتے سوچتے انہیں خیال آیا کہ وہ ماموں کے پاس رکے کیوں نہیں۔ انہیں کوئی ضرورت پیش آسکتی تھی۔ ظہیر کو شدید احساس جرم نے آ گھیرا۔ انہوں نے سوچا: 'ماموں کے پاس رکنا چاہیے تھا۔ ضروری تو نہیں کہ سب کو ہی کرونا لگ جائے یا سب ہی اس سے ہلاک ہو جائیں۔ میں کل سارا دن ماموں کے پاس گزاروں گا۔' اس نے خود کو تسلی دی ۔
اگلے دن ہسپتال پہنچے تو ایک دل دہلا دینے والی خبر ان کی منتظر تھی۔ 'آپ کے عزیز کا انتقال ہو گیا ہے۔' ڈاکٹر نے انہیں سرد لہجے میں بتایا۔
ظہیر کو بتایا گیا کہ رات کو عملے نے مریض میں کرونا وائرس کی علامات محسوس کیں جس پر انہیں وائرس کے علاج کے لیے مختص ایک دوسرے ہسپتال روانہ کر دیا گیا۔ لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔ ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ مریض کے نمونے جانچ کے لیے لیبارٹری بھیج دیے گئے ہیں جس کے بعد پتہ چلے گا کہ وہ وائرس سے متاثر تھے یا نہیں۔
یہ سن کر وہ ڈر گئے۔ انہیں سہما دیکھ کر آس پاس کے لوگوں نے دلاسہ دیا۔ ایک نے کہا کہ 'مرحوم کو کرونا وائرس نہیں تھا اور وہ ڈاکٹروں کی غفلت سے ہلاک ہوئے ۔ ڈاکٹر اپنی جان چھڑانے کو انہیں کرونا کا مریض بتا رہے ہیں۔اگر وہ کرونا کے مریض تھے تو ڈاکٹروں نے انہیں کرونا وارڈ کی بجائے دل کے وارڈ میں کیوں داخل کیا؟' کسی دوسرے نے بھی سرگوشی کی۔ ہسپتال عملے نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ لاش کو خاموشی سے گھر لے جائیں اور دفنا دیں۔ اگر رپورٹ مثبت آگئی تو ان کے لیے مشکل کھڑی ہوسکتی ہے۔ انہیں اور ان کے عزیزوں کو قرنطینہ منتقل کردیا جائے گا۔ محلے میں الگ سبکی ہوگی۔
ایک لمحہ تو ظہیر کو خیال آیا کہ میت لے کر نکل جائیں، مگر پھر سوچا کہاں جائیں گے، اگر میت لے کے گھر گئے اور ماموں واقعی کرونا وائرس سے متاثرہ ہوئے تو ان کے والدین بھی بیمار ہو سکتے ہیں۔ اسی ادھیڑ بن میں شام ہوگئی۔
ان کے ذہن میں خیالات کی یلغار تھی۔ مزید وقت گزرتا گیا۔ انہوں نے کئی رشتہ داروں کو فون کیا لیکن کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے خوف کی وجہ سے کوئی بھی آنے کو تیار نہ تھا۔
آدھی رات کو وہ میت لے کر کہاں جاتے۔ انہوں نے ہسپتال کے ہر ذمہ دار کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن کہیں شنوائی نہ ہوئی۔ سب سے مایوس ہوکر وہ وارڈ کے باہر لان میں پڑے ایک بنچ پر بیٹھ گئے۔ وہ خود کو بہت تنہا اور بے بس محسوس کررہے تھے یہ سوچتے ہوئے کہ 'ریاست تو ماں ہوتی ہے یہ کیسے حالات تھے جب ریاست نے بھی تنہا چھوڑ دیا تھا؟'
وہ ایک دوراہے پر کھڑے تھے۔ اگر ماموں کی لاش گھر نہیں لے کر گئے اور انہیں انتظامیہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تو ان کے والدین اگر اسے معاف کر بھی دیں تو شائد وہ خود کو کبھی معاف نہ کرپائیں گے۔ رشتہ داروں اور دوستوں سے طویل گفتگو کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ لاش ہسپتال کے ہی سرد خانے میں رکھ دیں اور اگلا قدم صبح پر چھوڑ دے۔
بہاولپور کی ضلعی انتظامیہ بھی اسی قسم کی شش و پنج سے گزر رہی تھی۔ اگر لاش کو بغیر ٹیسٹ کا انتظار کیے کرونا وائرس کے مریض کے طور پر دفنایا تو نتیجہ منفی آنے کی صورت میں ڈپٹی کمشنر کی سبکی ہو سکتی ہے۔انظامیہ کو فکر تھی کہ کرونا وائرس کے مریض کا اعلان ہوتے ہی میڈیا نے پہنچ جانا تھا۔ ایک شور مچ جاتا اور حکام بالا ناراض ہو سکتے تھے، اور پھر لواحقین کو بھی قرنطینہ میں رکھنا پڑنا تھا۔
ڈی سی کی سربراہی میں ضلعی انتطامیہ نے یہی فیصلہ کیا کہ لاش کو اس وقت تک سرد خانے میں ہی پڑا رہنے دیا جائے جب تک لیبارٹری کا نتیجہ نہیں آجاتا۔تاہم لواحقین کے لیے غیر معینہ مدت تک لاش کو سردخانے میں رکھنے کا تصور ہی روح فرسا تھا۔ ہر کوئی اپنے طور پر مسئلے کاحل تلاش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اسلام آباد میں مقیم ظہیر کے ایک رشتہ دار نے جب اعلیٰ حکام سے بات کی تو ایک تلخ حقیقت کا ادراک ہوا۔ وزیروں سے لے کر مشیروں اور مشیروں سے لے کر روزانہ ٹی وی پر بیٹھ کے حکومت کےاس بیماری کے خلاف کارناموں کی روداد بیان کرنے والے چہروں تک سب نے اس معاملے میں بے بسی دکھائی۔
انہیں بتایا گیا کہ چونکہ ملک بیماری کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ اس لیے وفاق کا دوسرے صوبوں سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔مرکزی حکومت معطل ہے اور صوبے اپنے اپنے طور پر بیماری سے لڑ رہے ہیں۔ ڈی سی خود مختار ہیں مگر صرف وردی والوں کا فون سنتے ہیں۔
کسی خیر خواہ نے پنڈی سے سفارش لگوانے کو کہا۔ اس نے کسی طور این ڈی ایم اے میں واقفیت نکالی تو انہوں نے صوبائی این ڈی ایم اے میں سفارش کی حامی بھر لی۔ اس عزیز نے فوراً ظہیر کو فون کرکے تسلی دی ۔ جلد ہی اطلاع آگئی کہ ڈی سی صاحب لاش کو سرکاری سرپرستی میں دفنانے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ جنازے کا وقت تین بجے رکھا گیا تھا۔
سرد خانے کی انتظامیہ سے لاش وصول کرنا کٹھن ثابت ہوا۔ وہ تو لاش کو لاوارث سمجھ کر چیرا پھاڑی کا سامان سمجھ بیٹھے تھے۔ ڈپٹی کمشنر کے کہنے پر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو خود آنا پڑا۔
ورثا نے میت وصول کرنے کے بعد کرونا وائرس پروٹوکول کے مطابق جسد خاکی کو غسل دیے بغیر پلاسٹک کے تھیلے میں ملفوف کر کے لکڑی کے تابوت میں رکھا۔ لواحقین کو نماز جنازہ میں شرکت کی اجازت نہ تھی۔ محض چند افراد نے ہی ہسپتال کے میدان میں نماز ادا کی۔ کچھ لواحقین خاص حفاظتی لباس پہن کر آئے تھے جنہوں نے میت گاڑی میں منتقل کرنے ا ور پھر دفن کرنے میں عملے کا ہاتھ بٹایا۔ لاش دفن کر کے سارے لواحقین وزارت صحت کے دفتر گئے جہاں انہوں نے اپنے کپڑے تلف کیے۔ واپسی پر تمام مطمئن تھے تاہم ایک سوال سب کو ستا رہا تھا۔۔۔ اگر عباس صاحب کرونا کے مریض نہ نکلے تو؟