دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کرونا وائرس پھیلتا جارہاہے، اس صورتحال میں حکومت اور عوام کی طرح اپوزیشن بھی تشویش کاشکار دکھائی دیتی ہے۔
قومی اور پنجاب اسمبلی کے اجلاس بلائے جانے کے حوالے سے فوری طور پر کوئی فیصلہ نہیں ہوسکاجس پراپوزیشن رہنماؤں نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ایوانوں میں اس معاملے پر بحث کو ناگزیر قراردیاہے، تاکہ سب جماعتیں مل کر اس وبا سے نمٹنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تیار کر سکیں۔
مسلم لیگ ن کے رہنما میاں جاویدلطیف کا خیال ہے کہ حکومت کرونا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ملک میں تو لاک ڈاؤن نہ کر سکی البتہ ایوان ضرور بند رکھے ہیں۔تاکہ حکومت کی ناکامیوں کی نشاندہی نہ ہوسکے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما سید حسن مرتضی کہتے ہیں حکومتی اراکین اور وزیر اعلی مجمع لگا کر امدادی راشن تقسیم کرنے کی تصاویر بنوارہے ہیں لیکن اجلاس بلانے سے اجتناب کیاجارہاہے۔
ایوانوں کے اجلاس بلانے کی حکمت عملی:
کرونا وائرس پاکستان میں پھیلنے سے روکنے کے لیے دنیا بھر میں رائج طریقے کے مطابق سماجی دوری اور لاک ڈاؤن کرنے پر عمل کی کوشش ضرور ہوئی لیکن وزیر اعظم نے محنت کشوں اور چھوٹے کاروبار کرنے والوں کی مشکلات کے پیش نظر جزوی لاک ڈان کا اعلان کیا۔
جب کہ سندھ حکومت نے وفاق اور تمام صوبوں کی نسبت زیادہ سختی کے ساتھ مکمل لاک ڈان کو کامیاب بنانے کی کوشش کی۔سماجی دوری کو ہی مد نظر رکھتے ہوئے ایوان بالا اور ایوان زیریں سمیت صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس بھی بلانے سے اجتناب کیاجارہاہے۔
قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے ایک عہدیدار نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ سپیکر قومی اسمبلی کے ذریعے خصوصی طور پر اسمبلی اجلاس کے طریق کار کے لیے مقرر کردہ کمیٹی کا اجلاس گزشتہ روز منگل کوہوا۔جس میں اگلے بدھ تک تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں سے مشورہ کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔مشاورت کے بعد یہ کمیٹی سپیکر کو اپنی سفارشات پیش کرے گی۔ جس کا جائزہ لینے کے بعد سپیکر فیصلہ کریں گےکہ اجلاس کب طلب کیا جائے۔ اور اجلاس کے لیےکرونا وائرس سے بچاؤ سے متعلق اقدامات کا بھی جائزہ لیاجائے گا۔ان کے خیال میں مئی کے وسط تک اسمبلی اجلاس کا انعقاد متوقع ہے۔
پنجاب اسمبلی سیکرٹریٹ کے عہدیدار عنایت اللہ سے پوچھا گیا کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے کیا حکمت عملی بنائی جارہی ہے؟انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایاکہ حکومت پنجاب یا سپیکر پنجاب اسمبلی کی جانب سے ابھی تک ایوان کا اجلاس بلانے سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیاگیا۔حکومت نے سپیکر کو ابھی تک اجلاس کی سفارش بھی نہیں کی۔انہوں نے کہاکہ کرونا وائرس سے متعلق سپیکر پنجاب اسمبلی تمام سیاسی جماعتوں کے مختلف کمیٹیوں میں شامل اراکین سے ویڈیو لنک پر مشاورتی اجلاس ضرور کر رہے ہیں لیکن ابھی باقاعدہ اسمبلی اجلاس یا پری بجٹ اجلاس سے متعلق کوئی حکمت عملی نہیں بنائی گئی۔
سیاسی ردعمل:
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے بھی موجودہ صورتحال پر بحث ومباحثہ اور تجاویز کے لیے ایوانوں کے اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا۔
مسلم لیگ ن کے رہنما میاں جاوید لطیف نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا میں ترقی یافتہ ممالک بھی مکمل لاک ڈاؤن کر کے صحت کی سہولیات بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ پاکستان میں حکومت سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے علاوہ کچھ کرتی دکھائی نہیں دے رہی۔انہوں نے کہا کہ دنیا کے ملک ایوانوں کے اجلاسوں میں مسائل کا حل تلاش کر کے ملک لاک ڈاؤن کیے جارہے ہیں جب کہ ہماری حکومت ملک میں لاک ڈاؤن کی بجائےایوانوں کو بند کر رہی ہے تاکہ ان کی کارکردگی پر تنقید نہ کی جاسکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ اگر کرونا کے ڈر سے اجلاس نہیں بلائے جارہے تو وفاقی اور صوبائی کابینہ کے اجلاس اور وزیر اعظم ہاؤس میں ملاقاتیں کیسے ہورہی ہیں؟
میاں جاوید لطیف نے کہاکہ حکومت اس مشکل وقت میں بھی اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بیان بازی اور انہیں نیچا دکھانے کی کوشش میں طاقت لگارہی ہے جبکہ مسائل حل کرنے میں کوئی سنجیدگی دکھائی نہیں دیتی۔انہوں نے کہا آئے روز وزیر اعظم خطاب کر کے عوام کو جھوٹی تسلیاں دینے پر لگے ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر حسن مرتضی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں پری بجٹ اجلاس بلانے سے بھی گریز کیا جارہا ہے جبکہ تجاویز آنے کے باوجود بجٹ تیاری میں بھی تاخیر ہورہی ہے جس سے آنے والے دنوں میں صوبے میں مالی بد نظمی اور وسائل کی منصفانہ تقسیم بھی امتحان بن جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی اراکین راشن تقسیم کرنے کے نام پر جلسے کر کے اور وزیر اعلی مختلف علاقوں میں دوروں کے دوران مجمع جمع کر کے لوگوں میں کرونا پھیلنے سے متعلق خطرات کا باعث بن رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہئے حفاظتی اقدامات کے ساتھ کسی کھلے مقام پر اسمبلی کا اجلاس طلب کر لے تاکہ اپوزیشن رہنماؤں اور اراکین کی تجاویز کو بھی تسلیم کر کے لوگوں کی مشکلات بہتر انداز میں حل کرنے کی حکمت عملی بنائی جا سکے۔پنجاب اسمبلی کے جمہوری حق کو نظر انداز کر کے کمیٹیوں کے زریعے کام چلایا جارہاہے۔
حکومتی ترجمان شہباز گل نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کا اجلاس بلائیں اگر کسی کو کرونا ہوا تو وہ ذمہ دار ہوں گے۔ عجیب منطق ہے اپوزیشن لیڈر کہہ رہے ہیں کہ کرونا کے خوف کی وجہ سے نیب پیش نہیں ہوسکتا جبکہ خاقان عباسی صاحب پارلیمنٹ سیشن بلانے پر بضد ہیں۔
ترجمان پنجاب حکومت مسرت جمشید چیمہ سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے سوال کیا کہ اپوزیشن کے مطالبے پر اجلاس کیوں نہیں بلایا جارہا؟ تو انہوں نے کہا کہ اپوزیشن صرف طوفان بدتمیزی کے لیے اجلاس کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اگر یہ عوام کے ساتھ اتنے مخلص ہیں تو اپنی تجاویز تحریری طور پر یا پریس کانفرنس کے ذریعے حکومت تک بھجوادیں۔
انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف لندن سے سپر مین کی طرح آئے جیسے سب مسائل الہ دین کا چراغ رگڑ کر حل کر دیں گے، بعد میں جب نیب نے طلب کیا تو انہیں بڑھاپا اور کینسر کا مرض لاحق ہوگیا، جو نیب کے دفتر نہیں جاسکتے وہ اسمبلیوں میں کیسے شریک ہوسکتے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ اجلاس کا مطالبہ اس وقت بلا جواز ہے۔ یہ حکومت کا وقت برباد کرنا چاہتے ہیں جب حکومت مناسب سمجھے گی تو اجلاس بلا لیا جائے گا۔ عوام پہلے اجلاسوں میں بھی اپوزیشن کی کارکردگی دیکھ چکے ہیں، سوائے نیب کے خلاف بیان بازی کے، کن عوامی مسائل کو اجاگر کیاجاتا رہاہے؟