ایسے وقت میں جب پاکستان میں کرونا (کورونا) وائرس کی بڑھتی وبا کی وجہ سے موثر ٹیسٹنگ کی ضرورت ہے اور یومیہ کرونا ٹیسٹس کی تعداد بڑھانے کی طرف توجہ دی جا رہی ہے تو نسٹ یونیورسٹی کی تیار کردہ کرونا وائرس ٹیسٹ کٹس کو ابھی تک پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) سے اجازت نامہ کیوں نہ مل سکا؟
نسٹ یونیورسٹی ذرائع کے مطابق گذشتہ تین ہفتوں سے ٹیسٹنگ کِٹس کی منظوری کا معاملہ ڈریپ کے پاس ہے۔ نسٹ ذرائع کے مطابق ایسے ہنگامی حالات میں بھی اگر ٹیسٹنگ کِٹس کی منظوری میں اتنا وقت لگے گا تو مقامی طور پر تیار ہونے والی کِٹس کو کیسے اور کب استعمال کیا جائے گا؟
وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایسا نہیں کہ پہلےتجربے کے بعد ہی منظور کر لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت نے ڈریپ کو سختی سے کہا تھا کہ ٹیسٹنگ کٹس کے لیے وضع کردہ گائیڈ لائن میں نرمی بالکل نہ کریں کیونکہ اگر کِٹ نے مثبت کیس منفی دکھا دیا تو تباہی ہو جائے گی۔
نسٹ کی کرونا ٹیسٹنگ کٹس کے حوالے سے وفاقی وزیر نے کہا کہ اس کِٹ سے اب تک 50 ٹیسٹ ہو چکے ہیں، جن میں سے 48 کامیاب تھے۔ اس ٹیسٹ کِٹ کی شرح کارکردگی 90 فیصد سے زیادہ ہے۔
وفاقی وزیر نے ٹیسٹنگ کِٹس کے باقی سیمپلز میں تاخیر کی وجہ یہ بتائی کہ نسٹ کے سائنس دانوں کے پاس ٹیسٹ کِٹس میں استعمال ہونے والا کیمیکل ختم ہو گیا تھا اور وہ چین سے درآمد کرنا تھا لیکن چین نے اُس مخصوص کیمیکل کی برآمد پر پابندی لگا دی ہے، پھر این آئی ایچ کے ذریعے وہ کیمیکل چین سے منگوایا گیا تاکہ 300 سیمپلز مکمل ہو سکیں۔
کرونا وائرس کے باعث سائنسی آلات منظور ہونے کی ہنگامی گائیڈ لائنز کیا ہیں؟
فواد چوہدری نے واضح کیا کہ ڈریپ کی کوئی ایمرجنسی گائیڈ لائنز نہیں کیونکہ ایمرجنسی میں ٹیسٹنگ شرح کم کرنے ( کسی بھی چیز کی جلدی منظوری دے دینے) کا مطلب یہ ہے کہ 'ہم اپنی کوالٹی پر سمجھوتہ کر لیں، جس کی وزارت بالکل اجازت نہیں دے گی۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وفاقی وزیر سے پوچھا گیا کہ امریکہ میں فیڈرل ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ایف ڈی اے) نے تو کرونا وبا کے باعث کرونا ٹیسٹنگ کِٹس کے سیمپل 20 مقرر کر دیے ہیں تاکہ جلدی ٹیسٹ کِٹس مارکیٹ میں آ جائیں تو پاکستان میں اس حوالے سے سیمپل سائز کیا رکھا گیا ہے؟
فواد چوہدری نے بتایا کہ ڈریپ نے منظوری کے لیے 300 سیمپل لینے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے اورجہاں تک بات ٹیسٹ کِٹس کی ہے تو چونکہ پاکستان میں پہلے ٹیسٹ کِٹس بنتی ہی نہیں تھیں اس لیے ہمیں اس معاملےمیں زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔
'ہم چاہتے ہیں کہ نسٹ ٹیسٹنگ کِٹس کی کوالٹی ایسی ہو کہ ہم اُس کو برآمد بھی کر سکیں۔ این آئی ایچ نے سیمپل کا بندوبست کر دیا ہے، آئندہ ہفتے تک نسٹ کی ٹیسٹنگ کِٹ سے باقی 250 سیمپل مکمل ہو جائیں گے تو کرونا ٹیسٹنگ کِٹ کی باقاعدہ منظوری ہوجائے گی۔'
وفاقی وزیر نے مزید بتایا کہ ڈریپ کو ہدایات دی گئیں ہیں کہ بیرون ملک سے آنے والی ٹیسٹنگ کِٹس کو بھی پہلے جانچاجائے اور معیار پر سمجھوتہ بالکل نہ کیا جائے۔'
انڈپینڈنٹ اردو نے ڈریپ کے اعلیٰ عہدے دار ڈاکٹر غظنفر سے اس سلسلے میں رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ بنیادی طور شماریاتی مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی دوا یا سائنسی مشین کی منظوری کرنے کے لیے سیمپل سائز رکھنا بہت ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں چونکہ پہلی بار ٹیسٹنگ کِٹس بن رہی ہیں اس لیے پہلے کوئی طے شدہ طریقہ کار نہیں تھا۔ سائنسی آلات درآمد ہی کیے جاتے تھے یا پھر خام مواد منگوا کر بنے بنائے فارمولے پر کام کیا جاتا تھا۔
'اس لیے جب نسٹ کے سائنس دانوں نے کرونا وائرس ٹیسٹنگ کِٹس بنانے کا دعویٰ کیا تو ڈریپ اور وزارت سائنس نے قومی ادارہ صحت کے ساتھ مل کر 11 اراکین پر مشتمل ماہرین کی ٹیم بنائی جنہوں نے منظوری کے لیے 300 سیمپلز کا ہدف طے کیا، جس کے بعد ڈریپ اس کی رجسٹریشن کرے گااور لائسنس فراہم کرے گا۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ کہ ٹیسٹنگ کِٹس کا یہ بھی مسئلہ ہے کہ وہ مثبت کیس کو منفی اور منفی کو مثبت بھی دکھا دیتی ہیں، ایسا بہت سی نجی لیبارٹریز میں ہوا، جس کی وجہ سے ڈریپ نے ٹیسٹنگ کِٹ کی منظوری کا طریقہ کار سخت رکھا ہوا ہے۔
کرونا ٹیسٹ کِٹس پاکستان میں کب بنائی گئیں؟
نسٹ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے رواں سال جنوری میں کرونا وائرس وبا پھوٹنے کے بعد ٹیسٹنگ کِٹس پر کام شروع کر دیا تھا۔
ٹیسٹنگ کِٹ کی تیاری میں شامل ڈاکٹر ذوہیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ان کی ٹیم نے ٹیسٹنگ کِٹس 14 فروری تک پاکستان میں تیار کر لیں تھیں لیکن چونکہ پاکستان میں تب کرونا کا کوئی مریض نہیں تھا تو پاکستان میں اس لیے اُس کا تجربہ نہیں کیا جا سکا تھا۔
ڈاکٹر ذوہیب کے مطابق جیسے ہی پاکستان میں کرونا کا پہلا مریض سامنے آیا تو انہوں نے حقیقی سیمپل پر اس کا تجربہ کیا جو کامیاب رہا۔
نسٹ سائنس دانوں کے مطابق وہ ابتدائی طور پر 10 ہزار ٹیسٹنگ کِٹس تیار کر رہے ہیں اور مزید بھی تیاری کے مراحل میں ہیں۔
کرونا ٹیسٹ کِٹ بنانے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ زیادہ وقت نہیں لگتا، چونکہ اب فارمولا علم میں ہے کہ کون سے کیمیکل استعمال ہوتے ہیں تو آدھے گھنٹے میں ایک ٹیسٹ کِٹ بنا سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ قومی ادارہ صحت کے سربراہ میجر جنرل ڈاکٹر عامر اکرام نے کہا ہے کہ اب پاکستان کی کرونا ٹیسٹ کرنےکی روزانہ صلاحیت 20ہزارتک ہو چکی ہے۔ پاکستان میں 52 لیبارٹریوں میں پی سی آرکی گنجائش کے بعد 20 ہزارٹیسٹ یومیہ ممکن ہو گئے ہیں، جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ یومیہ ٹیسٹوں کی تعداد 30 ہزار تک کرنے کی ضرورت ہے۔