ہم بچپن سے ایک کہاوت سنتے آئے ہیں کہ ’چور کی داڑھی میں تنکا۔‘ آئیے آج آپ کو اس کا عملی نمونہ دکھاتے ہیں۔
آج سے چند روز قبل وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ایک نشست میں معروف عالم دین جناب مولانا طارق جمیل صاحب نے حالات حاضرہ کی سنگینی سے اللہ کی پناہ مانگتے ہوئے بہت خوبصورت انداز میں پوری قوم کے لیے دعا مانگی۔ جس رقت آمیز انداز میں انہوں نے اللہ کے حضور گڑگڑا کر اس رب کو اس کی شان رحیمی و کریمی کا واسطہ دے کر رحم طلب کیا، اس نے ہر آنکھ نم کر دی۔
اس دعا کے دوران انہوں نے خود کو بھی مورد الزام ٹھہرایا: ’اے میرے رب شاید میں اپنی قوم کی صحیح تربیت نہیں کر پایا۔ میری قوم کے نوجوان دین سے دور ہیں۔ انہیں دین سے جوڑ دے۔ عمران خان جب حکومت میں آئے تو ان کو اجڑا ہوا چمن ملا، مالک رحم کر۔‘
میڈیا کا حوالہ دے کر بھی مولانا صاحب نے جھوٹ اور فریب سے بچنے کی دعا کی اور اس بات سے بھی اللہ کی پناہ مانگی کہ قوم کی بیٹیوں کو کیسے محض چھوٹے چھوٹے فائدوں کے لیے استعمال کر کے اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔
یہ دعا مانگنے کی دیر تھی کہ میڈیا پر ہر طرف سے مولانا صاحب پر تنقید کے نشتر برسائے جانے لگے۔ دوسری جانب ’عورت مارچ‘ کی پروردہ خواتین بھی مولانا صاحب پر حملہ آور ہو گئیں کہ ہمارے لباس پورے ہوں یا ہم نیم برہنہ ہوں، آپ کو اس سے کیا غرض ہے؟ آپ اپنی دعاؤں میں ہمارا تذکرہ نہ ہی کریں تو آپ کے لیے بہتر ہے، وغیرہ وغیرہ۔
چند معروف اینکر تو مولانا صاحب کی کردارکشی تک کرنے پر اتر آئے، جو شاید یہاں لکھتے ہوئے مجھے شرم آ جائے اور پڑھتے ہوئے آپ کو۔ چند لوگ معترض تھے کہ آخر مولانا صاحب عمران خان کو کیوں ملنے آئے اور چند اصحاب کو یہ شکوہ ستا رہا تھا کہ مولانا صاحب ابن الوقت ہیں، یہ تو نواز شریف اور پرویز مشرف کو بھی ملتے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نواز شریف اور مشرف سے مولانا کی ملاقات پر ان میں سے کسی کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا، لیکن آج عمران خان سے ملنے پر مولانا ابن الوقت ٹھہرے۔ واہ واہ۔ کاش منافقت کا ایک روپ ہوتا۔
مولانا صاحب کو اگلے ہی روز ٹیلی ویژن پر دو پروگراموں میں لے کر ان کا موقف پوچھا گیا۔ انہوں نے یہ کہہ کر رخصت چاہی کہ ’میرا کوئی موقف نہیں، میں معذرت چاہتا ہوں اگر میری کسی بات سے کسی کی دل آزاری ہوئی۔‘
مولانا صاحب تو یہ بات کر کے چلے گئے لیکن بہت سی آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔ شاید وہ اس بات پر کرب کا شکار ہو گئیں کہ شہ رگ سے قریب موجود رب سے جس محبت سے یہ شخص، جن کے لیے تڑپ کر دعائیں مانگ رہا تھا، آج انہی لوگوں سے ان کے لیے مانگی گئی اپنی دعاؤں پر معافی مانگ رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کئی اینکر اور صحافی اور ان کے ساتھی، جو اس لمحے سے ہی مولانا صاحب سے نالاں تھے، جب سے انہوں نے میڈیا پر چلنے والے جھوٹ اور فریب کے خلاف اللہ کی مدد مانگی تھی، شاید اس کو ذاتی حملہ سمجھ رہے تھے، مولانا کی معذرت پر جھٹ سے کہنے لگے کہ دیکھا؟ ہم سے معافی مانگ لی گئی۔ (یعنی مولانا صاحب اپنی غلطی مان گئے)۔
بعض عوامی حلقوں کی رائے کے مطابق مولانا نے جس معاشرتی بگاڑ کی نشاندہی کی ہے تو بالکل بجا ہے۔ آج کا شریف انسان محض اس لیے پس رہا ہے کہ وہ شریف اور ایمان دار ہے۔ جو لوگ جھوٹ، مکر اور رشوت سے غلط راستے ڈھونڈ کر مقتدر لوگوں سے ساز باز کر لیتے ہیں، وہ سائیکل سے ہوائی جہاز تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس میں مرد بھی شامل ہیں اور خواتین بھی۔
جو خواتین اپنی حیا کا پاس رکھ کر محنت کرکے آگے بڑھنا چاہتی ہیں، ان کو نہ صرف زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ بارہا یہ احساس بھی دلایا جاتا ہے کہ آپ کا مضبوط کردار آپ کی راہ کا سب سے بڑا کانٹا ہے، تاہم ہر کوئی ایک سا نہیں۔ چند لوگوں میں آج بھی خاندانی اقدار اور اچھی تربیت کا پاس ہے، لیکن میرٹ کا قتل عام بہرحال ایسے ہی ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا، جب تک اس بگاڑ کو سدھارا نہیں جائے گا۔
مولانا صاحب نے معافی اس لیے نہیں مانگی کہ انہوں نے کچھ غلط کیا بلکہ اس لیے کہ وہ کم عقل لوگوں سے بحث کرکے اس مقدس مہینے میں اپنا وقت دین کی خدمت پر صرف کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ معافی تو دراصل ان کو مانگنی چاہیے، جن کو آئینہ دیکھ کر خوف آ گیا تو اپنی اصلاح کی بجائے، آئینہ توڑنے ہی چل دیے۔ خصوصاً ان کو جنہوں نے مولانا صاحب پر یہ بہتان تراشا کہ انہوں نے کرونا وائرس کا الزام خواتین کے ناکافی لباس کو ٹھہرایا ہے۔
میں بحیثیت خاتون، مولانا صاحب کا برملا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ انہوں نے جس دلیری کے ساتھ معاشرے کے اس فتنے کو بےنقاب کیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں اس عوام کا حصہ ہوں، جو مولانا صاحب کی محبتوں اور پرخلوص دعاؤں کی مقروض ہے۔ جن مسائل کی نشاندہی آپ نے کی، وہ ہمارے معاشرے میں بدرجہ اتم موجود ہیں اور جو آپ پر ذاتی نوعیت کے حملے کر رہے ہیں، ان میں بھی۔ یہاں تو آئینہ دکھایا بھی نہیں اور برا بھی مان لیا گیا۔
سچ کہتے ہیں: ’چور کی داڑھی میں تنکا!‘