بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی سکیورٹی فورسز نے شدت پسندوں کے خلاف اپنے آپریشنز مزید تیز کردیے ہیں اور مسلمانوں کے اس مقدس مہینے کے پہلے تین دنوں کے دوران جنوبی کشمیر میں کم از کم سات شدت پسند مارے گئے۔
نیز دو الگ الگ آپریشنز کے دوران دو عام کشمیری بھی مارے گئے جن کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ شدت پسندوں کے 'کٹر ساتھی و حمایتی' تھے۔
اہلیان کشمیر پیر کی علی الصبح سحری کے لیے اٹھے تو سوشل میڈیا پر یہ خبر مشتہر ہوئی کہ جنوبی ضلع کولگام کے قاضی گنڈ علاقے میں سکیورٹی فورسز نے شدت پسند مخالف آپریشن شروع کیا ہے۔ بعد ازاں جب وہ طلوع آفتاب کے بعد نیند سے جاگے تو انہیں سوشل میڈیا کی وساطت سے ہی معلوم ہوا کہ مذکورہ آپریشن حال ہی میں بننے والی شدت پسند تنظیم دی ریزسٹنس فرنٹ (ٹی آر ایف) سے وابستہ تین شدت پسندوں کی ہلاکت پر ختم ہوگیا ہے۔
آپریشن کی جگہ پر جب لوگ جمع ہوئے تو وہاں ایک زوردار دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں چار بچوں سمیت کم از کم ایک درجن افراد زخمی ہوگئے۔ زخمیوں کو علاج کے لیے مختلف ہسپتالوں میں داخل کرایا گیا ہے جن میں سے ایک کی حالت تشویشناک بتائی جارہی ہے۔
اسی ضلع کے گڈر نامی گاؤں میں اتوار کی شام سکیورٹی فورسز نے ایک شدت پسند کو ہلاک کرنے کا دعویٰ اس وقت کیا جب لوگ اپنے گھروں میں نماز تراویح ادا کرنے میں مصروف تھے۔ اس آپریشن کے دوران بھارتی فوج کا ایک افسر بھی گولی لگنے سے شدید زخمی ہوا۔
ہلاک ہونے والے نوجوان کے افراد خانہ نے پیر کے روز سکیورٹی فورسز کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جس لڑکے کو شدت پسند قرار دے کر ہلاک کیا گیا ہے وہ ایک طالب علم ہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق ہلاک ہونے والا نوجوان کشمیر پولیس کے ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر کا بیٹا اور حال ہی میں پنجاب سے لوٹا ہے جہاں وہ ایم ٹیک کر رہا تھا۔ تاہم سکیورٹی فورسز نے بعد ازاں اپنا بیان بدلتے ہوئے کہا کہ ہلاک ہونے والا نوجوان شدت پسندوں کا 'ساتھی' تھا اور اس کے قبضے سے ایک پستول اور ایک گرینیڈ برآمد ہوا ہے جبکہ شدت پسند فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
قبل ازیں 24 اور 25 اپریل کی درمیانی شب یعنی پہلی رمضان کو جنوبی کشمیر کے پلوامہ اور کولگام اضلاع میں دو الگ الگ آپریشنوں میں چار شدت پسند اور پولیس کے دعوے کے مطابق ان کا ایک 'کٹر حمایتی و ساتھی' مارا گیا۔
کولگام آپریشن کے دوران کشمیر پولیس کے دو اہلکار زخمی ہوئے تھے جن میں سکیورٹی عہدیداروں کے مطابق شدت پسندوں سے بچایا جانے والا ریلوے پولیس کا ایک اہلکار بھی شامل تھا جس کو اغوا کیا گیا تھا۔
کشمیر میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے شدت پسند مخالفت آپریشنز ایک ایسے وقت میں تیز کیے گئے ہیں جب نہ صرف رمضان کا مہینہ اپنے آغاز میں ہی ہے بلکہ یہاں کرونا (کورونا) وائرس کے مثبت کیسز میں غیر معمولی اضافے کے پیش نظر گذشتہ 40 دنوں سے سخت لاک ڈاؤن نافذ ہے۔
وادی میں اب تک کرونا وائرس کے زائد از ساڑھے پانچ سو کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے سات مریضوں کی موت واقع ہوچکی ہے۔
سکیورٹی اداروں نے مارے جانے والے شدت پسندوں کی شناخت ظاہر کرنا بند کردیا ہے اور انہیں اپنے آبائی علاقوں سے دور نامعلوم اور غیر ملکی شدت پسندوں کے لیے مخصوص قبرستانوں میں دفنانا شروع کر دیا ہے۔
کشمیر کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق 1990 کی دہائی میں شروع ہوئی مسلح شورش میں پہلی بار ایسا ہوا ہے جب مقامی شدت پسندوں کی لاشیں ان کے لواحقین کو سونپنے کے بجائے دوسرے اضلاع میں واقع مخصوص قبرستانوں میں دفنائی جارہی ہیں۔
انسانی حقوق کے معروف کشمیری کارکن خرم پرویز نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے حکومت کرونا وائرس کی آڑ میں زیادہ سے زیادہ ایسے افراد کو مارنا چاہتی ہے تاکہ ان کے جنازوں کے اجتماعات منعقد نہ ہوں جن میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے تھے۔
ان کا کہنا تھا: 'میرا ماننا ہے کہ آپریشنز میں تیزی کا مقصد یہ ہے کہ حکومت کرونا وائرس کی آڑ میں زیادہ سے زیادہ شدت پسندوں کو مارنا چاہتی ہے تاکہ جنازوں کے اجتماعات، جن میں لوگوں کی بڑی تعداد شرکت کرتی تھی اور امن وامان کی صورت حال بگڑنے کے مسئلے بھی پیدا ہوجاتے تھے، سے بچا جاسکے۔'
وہ مزید کہتے ہیں: 'شدت پسندوں کے جنازوں میں جب پانچ یا دس ہزار لوگ شرکت کرتے تھے تو تصویریں اخبارات میں شائع ہوجاتی تھیں۔ حکومت کو کرونا وائرس کے پھیلاؤ سے زیادہ اس بات کا ڈر ہے۔ یہاں کے لوگوں کو یہ سمجھ ہے کہ حکومت کو کس بات کا زیادہ ڈر ہے۔'
خرم پرویز نے مقامی شدت پسندوں کی لاشیں آخری رسومات کے لیے لواحقین کے حوالے نہ کیے جانے کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا: 'یہ انتہائی شرمناک صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ بین الاقوامی قوانین کہتے ہیں کہ لاشیں لواحقین کو آخری رسومات کی انجام دہی کے لیے دی جائیں۔ ان کو لاشیں لواحقین کو دینی چاہیے لیکن یہ لوگ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ یہ لوگ کرونا وائرس کو عذر کے طور پر پیش کررہے ہیں۔'
ان کا مزید کہنا تھا: 'اب یہ بھی بولا جارہا ہے کہ پاکستان سے شدت پسند انفیکشن لارہے ہیں۔ لیکن اگر ہم پاکستان زیر انتظام کشمیر پر نظر ڈالیں گے تو وہاں کرونا وائرس کے متاثرین کی تعداد بہت کم ہے۔ اس بیانیے سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کسی بھی صورت میں جنازوں کی اجازت نہیں دینا چاہتی ہے۔ مقامی سطح پر بھی لوگ سمجھتے ہیں کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے خطرے کے پیش نظر کسی بھی جگہ جمع ہونا صحیح نہیں ہے۔ ایسا ہوسکتا تھا کہ لاشیں لواحقین کو ہی دی جاتیں اور کم ہی لوگوں کو آخری رسومات میں شرکت کی اجازت ہوتی۔'
چند روز قبل جموں وکشمیر پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے وسطی ضلع گاندربل میں نامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران دعویٰ کیا کہ پاکستان کشمیر میں اب صرف شدت پسند ہی نہیں بلکہ ان کی صورت میں کرونا وائرس کے مریض بھی ایکسپورٹ کر رہا ہے۔ تاہم ذرائع کے مطابق بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گذشتہ چند دنوں کے دوران جتنے بھی شدت پسند مارے گئے ان میں اکثر مقامی کشمیری تھے۔
ادھم پور میں قائم بھارتی فوج کی شمالی کمان کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل ابھینو نونیت کے مطابق بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں رواں ماہ کے دوران اب تک 28 شدت پسند مارے جاچکے ہیں جبکہ رواں سال میں مارے جانے والے شدت پسندوں کی تعداد 58 ہے۔
بقول ان کے بھارتی فوج کرونا وائرس سے نمٹنے کے عزم پر ڈٹے رہنے کے علاوہ شدت پسندوں کے پیچھے پڑی ہوئی ہے تاکہ ان کی اور ان کی لیڈرشپ کی تعداد کو کم ترین سطح پر لایا جاسکے۔ ایسا کرنے سے وادی میں سیکورٹی گرڈ بھی مزید مستحکم ہوگیا ہے۔
کشمیر پولیس کے آئی جی وجے کمار نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ شدت پسندوں کو کرونا وائرس کے پیش نظر ان کے آبائی علاقوں کے قبرستانوں میں دفنایا نہیں جاتا ہے۔
بقول ان کے شناخت کے بعد شدت پسندوں کی تدفین ایک مجسٹریٹ کی موجودگی میں کسی دوسرے قبرستان میں عمل میں لائی جاتی ہے اور اگر شدت پسند مقامی ہے تو لواحقین میں سے دو تین لوگوں کو تدفین کے عمل میں شرکت کی اجازت دی جاتی ہے۔
شمالی کشمیر کے ایپل ٹاؤن سوپور میں 18 اپریل کو ہونے والے ایک تصادم کے بعد ہی پولیس نے شدت پسندوں کی لاشیں لواحقین کے حوالے کرنے کا سلسلہ بند کر دیا۔
سوپور کے اس تصادم میں 'جیش محمد' سے وابستہ ایک مقامی شدت پسند سجاد نواب ڈار مارا گیا تھا جس کے جلوس جنازہ میں کرونا وائرس لاک ڈاؤن کے باوجود کم از کم 400 مقامی افراد نے شرکت کی تھی اور آزادی کے حق میں نعرے لگائے تھے۔ پولیس نے بعد ازاں شرکائے جنازہ کے خلاف مقدمہ درج کرکے متعدد نوجوانوں کی گرفتاری عمل میں لائی تھی۔
سال 2018 میں جاری کشمیر پولیس کے خفیہ ادارے سی آئی ڈی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ سال 2016 کی برہان وانی ایجی ٹیشن کے بعد سے شدت پسندوں کے جلوس ہائے جنازہ میں لوگوں کی بھاری شرکت سیکورٹی ایجنسیوں کے لیے فکر مندی کا باعث بنی ہوئی ہے جس کو دور کرنا از حد ضروری ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ان بھاری تعزیتی اجتماعات سے شدت پسندی کو فروغ اور شدت پسندوں کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔
کشمیریوں کو ذہنی صحت کے مسائل
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ وادی میں ذہنی صحت کے مسائل بہت پہلے وبا کی شکل اختیار کر گئے تھے لیکن پانچ اگست 2019 کی صورت حال اور اب گذشتہ 40 دنوں سے نافذ سخت لاک ڈاؤن کے ساتھ تشدد کے نہ تھمنے والے سلسلے نے رہی سہی کسر پوری کر دی جس کے نتیجے میں یہ بحران کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
نہ صرف ذہنی مریضوں کی تعداد بڑھ گئی ہے بلکہ جو ٹھیک ہو چکے تھے وہ پھر سے ذہنی امراض کے شکار ہوئے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے بقول وادی میں ہر پانچ میں سے تین افراد کسی نہ کسی ذہنی مرض میں مبتلا ہیں لیکن ذہنی صحت کے تئیں کم معلومات کی وجہ سے مریضوں کی ایک چھوٹی تعداد ہی ڈاکٹروں سے رجوع کرتی ہے۔
امریکی اخبار 'نیویارک ٹائمز' کی ایک رپورٹ کے مطابق مسلسل محاصرے اور لاک ڈاؤن میں رہنے کی وجہ سے کشمیر کو ذہنی صحت کے بحران کا سامنا ہے اور پوری وادی میں ماہرین نفسیات کی تعداد کم و بیش 60 ہے۔
رپورٹ میں ایک سرکاری سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر ماجد شفیع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وہ گذشتہ برس ایک ہفتے میں ایک سو مریضوں کو دیکھتے تھے لیکن اب وہ پانچ سو مریضوں کو دیکھتے ہیں۔
ڈاکٹر ماجد جو ایک ملین آبادی والے ضلع پلوامہ میں واحد سرکاری سائیکاٹرسٹ ہیں، کے مطابق وادی میں ذہنی صحت کا بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتا جارہا ہے۔ اس بحران کا زیادہ شکار تشدد کے شکار کم عمر بچے، وہ مائیں جن کے بچے قید خانوں میں ہیں اور مسلسل لاک ڈاؤن کی وجہ سے قرضے میں ڈوبے تاجر ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بھارت میں امن کے لیے کام کرنے والے معروف سماجی کارکن اوم پرکاش شاہ نے ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا: 'ملک میں گذشتہ زائد از ایک ماہ سے جاری لاک ڈاؤن میں مجھے بار بار جموں وکشمیر کے اُن دوستوں کی یاد آرہی ہے جو اگست 2019 سے لاک ڈاؤن میں ہیں۔'
سن 2015 میں ڈاکٹرز ودآوٹ بارڈرس اور انسٹی چیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اور نیورو سائنسز سری نگر نے کشمیر میں ذہنی صحت پر ایک جامع سروے کیا جس میں یہ پایا گیا ہے کہ یہاں ذہنی صحت کے مسائل وبا کی سطح تک پہنچ چکے ہیں۔
متذکرہ سروے میں انکشاف ہوا تھا کہ 18 لاکھ کشمیری، جو یہاں کی آبادی کا 45 فیصد حصہ بنتا ہے، میں ذہنی امراض کی علامتیں موجود ہیں۔
سروے میں پایا گیا تھا کہ وادی میں 16 لاکھ بالغان میں ڈپریشن کی واضح علامتیں موجود ہیں۔ دس لاکھ ایسے ہیں جن میں اینگزائٹی (ذہنی دباؤ) کی علامتیں موجود ہیں۔ 93 فیصد کشمیری وہ ہیں جنہیں وادی میں جاری شورش کے متعلق ٹراما کا سامنا کرنا پڑا ہے۔