غاڑکہ کیا ہے، کیسے بنتا ہے، کس لیے استعمال ہوتا ہے اور اس کی تاریخ کیا ہے؟ آیئے جانتے ہیں اس بارے میں کیونکہ ہماری نئی نسل کو اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں۔
غاڑکہ اُس وقت کی ایجاد ہے جب قبائلی لوگ خانی بدوشی کی زندگی گزارتے تھے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرکے جایا کرتے تھے۔ اس زمانے میں چونکہ پانی رکھنے کے لیے وہ مٹی کے برتن ساتھ نہیں لے جا سکتے تھے اور مٹی کے برتن عام نہیں تھے، اس لیے یہیں سے غاڑکہ کی ضرورت نے جنم لیا۔
یہ بات ہے اس وقت کی جب افغانستان، ترکمانستان، ازبکستان وغیرہ آج کی طرح الگ الگ ملک نہیں تھے، بلکہ لوگ آزادانہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک آتے جاتے تھے۔
اس علاقے کے رہنے والے ازبک باشندے بھیڑ بکریاں چراتے چراتے آج کے افغانستان میں بھی آ جاتے تھے۔ یہ لوگ دنبے کے چمڑے سے قراقلی ٹوپی بناتے تھے، جسے قائداعظم کیپ بھی کہا جاتا ہے۔
قراقلی ٹوپی بنانے کا طریقہ آج کل کے اعتبار سے خاصا وحشیانہ ہے اور شاید بہت سے لوگ اسے برداشت نہ کر سکیں۔ یہ ٹوپی ان بھیڑوں کے بچوں کے چمڑے سے بنائی جاتی تھی، جو حمل سے ہوتی تھیں۔ ایسی ہی حاملہ بھیڑ کے حمل کے دوران ایک مخصوص وقت میں اس کو ذبح کر لیا جاتا تھا اور اس کے پیٹ سے بچے کو نکال کر اس کے نرم و ملائم چمڑے سے قراقلی ٹوپی بنائی جاتی تھی۔
ازبکوں نے یہ ٹوپی بنانے کا طریقہ ایجاد کیا، وہ اسے بناتے تھے اور بہت مہنگے داموں بیچا کرتے تھے۔ شاید یہیں سے انہیں غاڑکہ بنانے کا خیال آیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
غاڑکہ بکرے یا دنبے کے چمڑے سے بنایا جاتا ہے، اسے پانی رکھنے یا دودھ کو لسی میں تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
غاڑکہ کیسے بنایا جاتا ہے؟ یہ بہت محنت اور مہارت کا کام ہوتا ہے۔ سب سے پہلے بکرے یا دنبے کو ذبح کرکے اس سے چمڑا اتارا جاتا ہے اور پھر اس چمڑے میں راکھ ڈال کر 15 دن تک رکھا جاتا ہے۔ جب تک اس چمڑے سے بال نہ اتر جاتے وہ چمڑا راکھ سے بھرا رہتا ہے، پھر اس کے بعد ایک مہینے تک اسے دھوپ میں سکھایا جاتا ہے۔
اس دوران چمڑا تھوڑا سخت ہو جاتا ہے۔ اسے مزید سخت اور مضبوط بنانے کے لیے ایک کمرے میں 40 دن تک دھواں دیا جاتا ہے۔
یہ مرحلہ بھی گزر جائے تو اس کے بعد جنوبی وزیرستان خاص کر محسود علاقے میں چیڑئی یا سیڑئی نامی خاص درخت کے پتوں کو خوب پیس کر اس سے پانی نکالا جاتا ہے اور اس پانی میں چمڑے کو خوب ابالا جاتا ہے۔
ان سارے مرحلوں سے گزرنے کے بعد غاڑکہ تیار ہو جاتا ہے۔ پھر اس میں دودھ ڈال کر اس میں لسی خمیر کے لیے ڈالی جاتی ہے، جب غاڑکہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے تو اس میں گرم پانی ڈالا جاتا ہے اور جب گرم ہوتا ہے تو اس میں ٹھنڈا پانی ڈالا جاتا ہے اور جب دہی تیار ہو جاتا ہے تو اس کو تقریباً آدھے گھنٹے تک خوب ہلایا جاتا ہے، جس سے لسی اور پنیر الگ الگ ہو جاتے ہیں۔
اس غاڑکہ کو دربارہ استعمال میں لانے کے لیے اور اس کے ذائقے کو برقرار رکھنے کے لیے اس پر نمک کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے جس سے اس غاڑکہ کی پائیداری برقرار رہتی ہے۔
غاڑکہ کی دو اقسام ہوتی ہیں، ایک کو لسی اور پنیر بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور دوسری قسم کو پانی رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
جو غاڑکہ پانی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اس کو مشکائی کہتے ہیں، جس میں چشموں سے پانی لایا جاتا ہے یا پھر پرانے وقتوں میں جب جنگ ہوتی تھی تو یہی مشکائی بہت کام آتی تھی کیوں کہ اس کے ٹوٹنے کا خطرہ نہیں ہوتا اور اسے اٹھانا بھی آسان ہوتا ہے۔
دوسری قسم کا غاڑکہ وہ ہے جس میں پنیر تیار کیا جاتا ہے اور اسے دنبے کے چمڑے سے بنایا جاتا ہے، جب کہ مشکائی بکرے کے چمڑے سے بنتی ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ بکرے کا چمڑا دنبے کے چمڑے سے لمبا ہوتا ہے اور اس طرح مشکائی میں زیادہ پانی سماتا ہے۔
ویسے تو غاڑکہ بہت مضبوط اور ہر طرح کے موسمی حالات آسانی سے سہہ لیتا ہے، لیکن اس کے فوائد کے ساتھ ایک نقصان یہ ہے کہ اگر یہ کبھی پھٹ جائے تو اس کی دوبارہ سلائی نہیں کی جاسکتی، اس لیے ایک ہلکے سے چیرے سے بھی مہینوں کی محنت ضائع ہو جاتی ہے۔
اب حالات کے بدلنے کے ساتھ ساتھ غاڑکہ کا استعمال نہ صرف محدود ہو کر رہ گیا ہے بلکہ ہماری نئی نسل اس کے نام سے بھی واقف نہیں اور اس کا استعمال کم ہوتے ہوتے آج کل کے پہاڑوں میں رہنے والے خانہ بدوشوں تک ہی محدود رہ گیا ہے، بلکہ خانہ بدوشوں میں بھی بہت کم لوگ غاڑکہ کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔
۔۔۔۔
نوٹ: اختر خان نے بھی اس مضمون کے لکھنے میں مدد کی۔