پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے قریب واقع تاریخی لنڈی کوتل بازار میں دکاندار جنریٹر کی بجلی استعمال کرتے ہیں کیونکہ یہاں بجلی کی تاریں تو ہیں لیکن گذشتہ 15 سالوں سے بجلی نہیں۔
حکومتی اعلان کے بعد بہت سے دکانداروں نے بجلی میٹر کے لیے فیس بھی جمع کروا رکھی ہے، لیکن ابھی تک بجلی نہیں آئی۔
اسی بازار کی ایک دکان میں امجد علی شینواری گذشتہ 20 سالوں سے بجلی سے چلنے والی خراب اشیا کی مرمت کرتے ہیں۔
38 سالہ امجد روزانہ بلا ناغہ صبح سات بجے سے مغرب کی اذان تک دکان میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں، ان کی ایک آنکھ بھی متاثر ہوچکی ہے۔
انہوں نے بتایا: 'میری ایک آنکھ سات سال سے خراب ہے۔ ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ روشنی کے زیادہ استعمال نے آنکھ کو خراب کیا ہے۔'
ساتھ ہی انہوں نے بتایا: 'ہم نے دو تین مہینے پہلے میٹر کے لیے پیسے جمع کروائے ہیں لیکن ابھی تک کچھ پتہ نہیں چلا ہے کہ بجلی کب آئے گی۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لنڈی کوتل بازار میں دو ہزار سے زائد دکانیں ہیں۔ زیادہ تر دکانوں کو جنریٹرز سے بجلی ملتی ہے۔ ہر دکاندار روزانہ 150 سے لے کر 200 روپے بل دیتا ہے جن کو صرف چھ گھنٹے بجلی ملتی ہے۔
قبائلی علاقوں میں یہ جنریٹرز پر چلنے والی واحد بڑی مارکیٹ ہے، تاہم جنریٹرز کے شور نے بازار کی رونقیں کم کر دی ہیں اور گاہک بازار سے جلد از جلد نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حکومتی اہلکاروں نے چند مہینے پہلے بازار میں اکلوتا میٹر لگانے کی تقریب بھی منعقد کی تھی اور کہا تھا کہ اب دکانداروں اور تاجروں کو بجلی ملے گی لیکن اس میٹر کے تار ایسے ہی پڑے ہیں۔
صفت اللہ شنواری کے ہوٹل کے ساتھ پہلا میٹر لگا تو وہ خوش تھے اور انہوں نے بجلی آنے کی خوشی میں غریبوں میں مفت کھانا بھی تقسیم کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے ہوٹل میں بجلی آنے سے وہ بیس گنا پیسے بچا سکتے ہیں۔
صفت اللہ نے بتایا: 'ہمیں پہلے بجلی کے فوائد کا زیادہ اس لیے پتہ نہیں چلتا تھا کہ ہم نے کبھی زیادہ استعمال ہی نہیں کی تھی۔ گھر میں خواتین ہی استعمال کرتی تھیں۔ اب جب ہوٹل میں آیا ہوں تو بجلی کے فوائد کا پتہ چلا کہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کتنی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔ خواتین کو ہم سے زیادہ اس لیے پتہ ہوتا ہے کیونکہ وہ ہمیشہ سے گھروں میں کام کرتی ہیں، ہم تو بس صبح گھر سے نکلتے تھے اور رات کو گھر جاتے تھے۔'