خیبر پختونخوا کے مشیر برائے بجلی و توانائی حمایت اللہ خان کا کہنا ہے کہ وفاق نے صوبائی حکومت کو بجلی کے منافع کی مد میں سالانہ 128 ارب روپے تک کے بقایاجات ادا کرنے ہیں اور صوبائی حکومت کبھی اس دعوے سے دستبردار نہیں ہو گی۔
انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ خصوصی گفتگو میں حمایت اللہ کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا حکومت کا وفاقی حکومت کو بجلی کی مد میں بقایاجات کا مسئلہ پچاس سالوں سے چلا آرہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 1973 کے آئین کے تناظر میں منافع اسی صوبے کوملے گا جہاں بجلی بنتی ہے۔
حمایت اللہ خان نے تفصیلات دیتے ہوئے بتایا کہ 17-2016 کے مد میں تقریباً 128 ارب روپے سالانہ بقایاجات بنتے ہیں جو وفاقی حکومت نے صوبے کو دینے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب تربیلہ اور دیگر پراجیکٹس سے مزید بجلی قومی گریڈ میں جاتی ہے تو یہ منافع اور بقایاجات زیادہ ہو جائیں گے جو حکومت کو ادا کرنا ہوں گے۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ اب تو وفاق اور صوبے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے تو پھر بقایاجات دینے میں کیا مسئلہ ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں پی ٹی آئی کی پچھلے دور حکومت میں وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے کئی دہائیوں بعد یہ مسئلہ وفاق کے ساتھ اٹھایا تھا اور اب وفاقی حکومت نے اس کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’پی ٹی آئی کے دور میں اتنا ہوا کے وفاق نے صوبے کی اعداوشمار اور بجلی منافع کے مد میں جو روپے صوبے نے بتائے ہیں ان کو قبول کیا ہے اور صوبائی کابینہ اس دعوے سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ مسئلہ کیا ہے کہ وفاق پیسے نہیں دے رہا، تو ان کا کہنا تھا کہ: ’وفاقی حکومت کہتی ہے کہ ملک میں معاشی مسائل چل رہے ہیں، اور وہ ان بقایاجات کو جیب سے تو ادا نہیں کر سکتے اس لیے صوبائی اور وفاقی حکومت کو اس پر مل کر بیٹھنا چاہیے تا کہ فیصلہ ہو سکے کہ وفاق کن ذرائع سے رقم نکال کر صوبے کو ادا کرے۔‘
حمایت اللہ کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا وفاق کو دو روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی دے رہا ہے لیکن واپس یہی بجلی 20 روپے فی یونٹ کے حساب سے خرید رہا ہے۔ انہوں نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’یہ کس قسم کی عقل مندی ہے کہ ایک چیز کسی کو دو روپے پر بیچیں اور واپس وہی چیز 20 روپے میں خریدیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس مسئلے کے حل کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے ایک ماڈل تیار کیا ہے اور اس پر وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ کے مابین بات چیت بھی ہوئی ہے کہ یہاں 18 میگا واٹ بجلی بنانے والے ایک پاور سٹیشن کی بجلی ہم صوبے کے کارخانوں کو سبسڈائزڈ ریٹ پر دیں گے تاکہ یہاں کارخانے آباد ہوں اور صوبے میں سرمایہ دار طبقہ سرمایہ کاری کرے۔
قبائلی اضلاع میں بجلی کا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟
اس حوالے سے مشیر برائے بجلی کا کہنا تھا کہ وہاں پر ٹرائبل الیکٹریسیٹی سپلائی کمپنی ابھی گریڈ سٹیشنز کی اپ گریڈیشن پر کام کر رہی ہے تاکہ ضم شدہ اضلاع اور خاص کر ایسی جگہیں جہاں کارخانے لگائے جا سکیں ان کو بجلی فراہم کی جائے۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ پہلے بھی وہاں 20 گھنٹے لوڈ شیڈنگ تھی اور اب بھی ہے تو کیا تبدیلی آئی ہے، تو انہوں نے کہا کہ وفاق کی جانب سے ضم شدہ اضلاع کو سبسڈائزڈ یونٹ دیے جارہے ہیں لیکن چونکہ وہاں صارفین کی تعداد اب بڑھ گئی ہے تو جو یونٹ گھرانے کے حساب سے تقسیم کیے جاتے تھے تو وہ کم ہوگئے ہیں تو لوڈ شیڈنگ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
تاہم انہوں نے بتایا کہ ضم شدہ قبائلی اضلاع میں میٹرز کا رواج نہیں ہے تو اسی مسئلے کے اوپر وہاں کے مقامی جرگوں سے حال ہی میں بات ہوئی ہے، اب وہ میٹرز لگانے کے لیے تیار ہیں اور اس پر کام شروع کر دیا گیا ہے جس سے لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
وہ 350 ڈیم کہاں بنے ہیں؟
پی ٹی آئی نے انتخابات سے قبل اور بعد میں صوبے میں 350 چھوٹے ڈیمز بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ اس حوالے سے مشیر برائے توانائی نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے 350 چھوٹے ہائڈرو پاور سٹیشنز لگانے کا منصوبہ بنایا تھا جو دریاوں پر بنتے ہیں اور مقامی آبادی کو بجلی فراہم کرتے ہیں۔ ان کے مطابق 350 میں سے 288 بن چکے ہیں اور 27 فیسیبل نہیں تھے تو ان پر کام نہیں کیا گیا جبکہ باقی 40 جون تک مکمل ہو جائیں گے۔