کس نے سوچا تھا کہ ایک وقت وہ بھی آئے گا جب حضرتِ انسان کا رمضان لاک ڈاؤن میں گزرے گا۔ اس سے پہلے یہ سہولت صرف شیطان کو میسر تھی، اب کم از کم اس معاملے میں ہم شیطان کے ہم پلہ ہیں۔ باقی معاملات ہر کوئی انفرادی طور پر چیک کر سکتا ہے۔
انسان کو ہر حال میں شکر کا کلمہ پڑھنا چاہیے۔ لاک ڈاؤن میں سب بور ہو گئے تھے، سحری و افطاری کی صورت کچھ تفریح ان کے ہاتھ آئی ہے۔ مزے مزے کے پکوان بن رہے ہیں اور اتنے ہی مزے سے کھائے جا رہے ہیں۔ ہاں کھانے سے قبل تصویر لینا لازمی ہے جو عین سحری اور افطاری کے وقت الحمداللہ کے کیپشن کے ساتھ اپ لوڈ کی جاتی ہے۔
تصاویر اپ لوڈ کرتے ہوئے دھیان رکھیں کہ آپ اپنے مقامی وقت کے مطابق روزے کی حالت میں نہ ہوں۔ ہم یہ غلطی کر بیٹھے ہیں، اسی لیے بتا رہے ہیں۔ ماننا نہ ماننا ہر ایک کی اپنی صوابدید پر ہے۔
کرنا کچھ ایسا ہوا کہ ایک دن کھانے کی تصویر عین دوپہر میں اپ لوڈ کر دی۔ کھٹ سے ایک ریپلائے آیا، ’روزہ؟‘
آگے پیچھے کچھ نہیں، بس ایک لفظ اور اس کے آگے لگا سوالیہ نشان۔ بڑی بوڑھیاں کہتی ہیں کہ کسی سے یہ سوال نہیں پوچھنا چاہیے۔ لوگوں کے دس مسائل ہوتے ہیں۔ رمضان میں فضول بحث میں پڑنے سے بہتر ہے کہ اس مبارک مہینے کا فائدہ اٹھاؤ اور اللہ اللہ کرکے جنت کی راہ ہموار کرو۔
بڑی بوڑھیاں یہ بھی کہتی ہیں کہ ایسا سوال کسی خاتون سے تو ہرگز نہیں پوچھنا چاہیے، پوچھنے کی غلطی کر لو تو جواب سننے سے پہلے ہی اپنی راہ پکڑ لو، خوامخواہ شرمندہ ہوتے پھرو گے۔ ہم نے یہ سنا ہوا تھا، ان صاحب نے شاید نہ سنا ہو تو سوچا جواب دینے سے پہلے پوچھ ہی لوں کہ جواب سن بھی سکتے ہیں یا نہیں؟ مناسب انسان تھے، پیچھے ہٹ گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ تو ہمارا معاملہ تھا۔ ہمارے ساتھ ایسے سانحے ہوتے رہتے ہیں۔ باقی کسی کے ساتھ کیا ہوتے ہوں گے۔ 2020 ہے، کرونا بھی ہے، لوگ اپنے کام سے کام رکھے ہوئے ہوں گے۔ اگلے دو گھنٹوں میں پتہ لگا کہ نہیں، جو ہمارے ساتھ ہوتا ہے وہ بہت سے دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ ایک خاتون اپنا قصہ بتانے لگیں۔ آج کل وہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھر سے کام کر رہی ہیں۔ ہفتہ وار میٹنگ چل رہی تھی، جانے سی ای او صاحب کو کیا ہوا، سب سے ان کا روزہ سٹیٹس پوچھنے لگے۔ خواتین سے خاص طور پر کہا کہ ’آپ لوگوں کے تو مزے ہوتے ہیں۔‘ ساتھ ہی ہلکی سی طنزیہ مسکراہٹ بھی دکھا دی۔
میٹنگ میں شامل تمام خواتین شرمندہ سی ہو گئیں جیسے اس میں بھی انہی کا قصور ہو۔ سب نے ایسے ظاہر کیا جیسے سوال ہوا ہی نہ ہو اور بات آئی گئی ہو گئی۔
خواتین کے معاملے میں یہ سٹریٹیجی اب تک بہترین مانی جاتی ہے۔ کچھ ہو جائے ایسے ظاہر کرو جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، سب بھلا چنگا رہے گا، سوائے ان کے، پر اس کی فکر کون کرتا ہے؟ خود وہ بھی کم کم ہی کرتی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ہم بطورعورت پیدا ہوئی ہیں، اس لیے ہمیں ہر وقت قربانی دینی چاہیے۔ ہمارا ماننا ہے قربانی ضرورت پڑنے پر دینی چاہیے۔ فضول کی قربانیاں دینے سے زندگی کا لطف جاتا رہتا ہے۔
ہم تو کہتے ہیں، جوب دے ہی دیا کرو۔ جواب کیسے ہضم کرنا ہے، یہ ان کا دردِ سر ہونا چاہیے۔ ایک بار مشقت کریں گے، اگلی بار اس سوال کی سوچ سے ہی دور بھاگیں گے۔ تم کیوں ڈرتی ہو۔ یہ تو ایک قدرتی عمل ہے۔ جب شرع میں کوئی شرم نہیں تو قدرت کے اس نظام میں کیوں شرم ہونے لگی؟
ہماری کئی سہیلیاں ایسی بھی ہیں جنہیں اس حالت میں بھی سحری کے لیے اٹھنا پڑتا ہے۔ اللہ نے تو چھوٹ دے دی لیکن ان کے گھر والے انہیں چھوٹ دینے سے گھبراتے ہیں۔ افطاری تو انسان کو ہر حال میں کرنی چاہیے لیکن رات کو اٹھ کر سحری کرنا خاص طور پر جب روزہ رکھنے سے شرع نے چھوٹ دی ہو، یہ تو کسی اسلامی گھر کا فخر نہیں ہونا چاہیے۔ اسلام تو دینِ فطرت ہے۔ یہ تو زندگی آسان بناتا ہے تو ان بے چاریوں کی زندگی کیوں مشکل بنا رہے ہو۔
کچھ سال پہلے اس موضوع پرایک بلاگ لکھا تھا۔ دفاتر میں احترامِ رمضان آرڈیننس ان پر بھی لاگو تھا جنہیں شرع اور قانون نے چھوٹ دی ہوئی تھی۔ کسی کی ہمت نہیں تھی کہ کونے میں پڑے پانی کے کولر تک ہی چلا جائے اور اپنی پیاس بجھا لے۔ خواتین کے معاملات تو چلو شرم تلے دبا دیتے ہیں، بقیہ لوگوں کے بھی ہزار معاملات ہوتے ہیں، ان کی بات کرنا بھی ممنوع ٹھہرا۔
کہنے والوں نے کہا کہ یہ سب تو ٹھیک ہے، لیکن تم ابھی کنواری ہو، کم عمر ہو، تمہیں اس موضوع پر نہیں لکھنا چاہیے، یہ شرم کی بات ہے، ہاں بیس سال بعد لکھنا، تب مناسب رہے گا۔ یعنی اس موضوع پر لکھنا بھی ایک خاص عمر تک منع ہے۔ ہم نے اس بار موضوع ہی اڑا دیا، اب تو لکھ سکتے ہیں۔ پڑھنے والے بھی شرمائے بغیر پڑھ سکتے ہیں۔ ہاں انہیں شرم ضرور آنی چاہیے جو یہ پڑھ کر بھی کسی سے پوچھیں کہ روزہ نہیں رکھتیں؟