کس نے سوچا تھا کہ کرونا (کورونا) وائرس کا یہ سلسلہ اتنا لمبا ہو جائے گا۔ ایک ننھا منا وائرس چین کے شہر ووہان سے نکلا اور پھر پوری دنیا میں پھیل گیا۔ یہ وائرس اب تک ایک لاکھ 70 ہزار سے زائد انسانوں کی جان لے چکا ہے۔ سوچا تھا گرمیاں آئیں گی تو شاید کرونا اپنے آپ ہی مر جائے گا اور ہم پھر سے نارمل زندگی کی طرف لوٹ آئیں گے۔
عالمی ادارہ صحت نے اس مفروضے کو بے بنیاد قرار دے دیا یعنی اب ہماری آخری امید وہی ویکسین ہے جسے مارکیٹ میں آنے میں سال لگ سکتا ہے۔
کچھ دن بعد رمضان بھی شروع ہونے والا ہے۔ اس مہینے کی اپنی ایک رونق ہوتی ہے۔ اس سال کرونا وائرس کی وجہ سے وہ رونق بھی ماند پڑتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ جو کام خاص رمضان سے منسوب تھے وہ اس سال ایک ڈیڑھ ماہ پہلے ہی ہوگئے جیسے کہ ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ اور اشیا خوردو نوش کا مہنگا ہونا۔ کچھ لوگوں نے اپنی سال بھر کی زکوٰۃ بھی رمضان سے پہلے ہی نکال دی تھی تاکہ سفید پوش طبقہ قرنطینہ کے مشکل دن آسانی سے گزار سکے۔
انہی لوگوں کی دیکھا دیکھی فیصل ایدھی نے بھی ایک چھوٹا سا چیک وزیرِ اعظم عمران خان کو پکڑا دیا۔ اب کچھ دن بعد ایدھی فاؤنڈیشن کی طرف سے زکوٰۃ کی اپیل کی جائے گی۔ میرا فیصل ایدھی کو مشورہ ہے کہ وہ یہ اپیل کسی اچھے کمیونیکیشن ایکسپرٹ سے بنوائیں۔
قرنطینہ میں لوگوں نے خود کو مصروف رہنے کے دس طریقے ڈھونڈ لیے ہیں جن میں سرِفہرست کھانا پکانا، پھر اسے سجانا اور پھر کھانا ہے۔ خواتین تو خواتین، کچھ مردوں نے بھی 'اپنا کھانا خود گرم کرو' کے تحت نت نئی ترکیبیں آزما ڈالیں۔ اب رمضان کے لیے وہی سموسے، پکوڑے، دہی بڑے اور فروٹ چاٹ ہی بچ گئے ہیں۔
اس سال میرا رمضان چین میں گزرے گا۔ یہاں رمضان کی رونقیں بس موبائل کی حد تک ہی محدود ہیں۔ دوست احباب کو رمضان مبارک کا میسج بھیج دو، گھر فون کر کے ان کا افطاری کا مینیو پوچھ لو اور پھر اپنا بتا دو، سجی سجائی پلیٹ کی تصویر انسٹاگرام پر ڈال دو، بس جی رمضان ہو گیا۔ کچھ لوگ جائے نماز سے بھی لائیو کوریج کرتے ہیں، ہمیں وہ نجی معاملہ لگتا ہے۔ چلیں یہ تو کہنے کو کہہ دیا، سچی بات تو یہ ہے کہ ایسے لمحات میں سچے پکے دوست ہی انسان کا ساتھ دیتے ہیں۔
ادھر آپ سجدہ ریز ہوئے ادھر دوست نے کھٹا کھٹ دو چار تصاویر بنا کر آپ کو واٹس ایپ کر دیں۔ ہمارے وزیرِ اعظم کے پاس بھی ایسے کئی دوست ہیں۔ ہماری قسمت، ہم اس معاملے میں بہت غریب ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہمیں تو سحری بھی اکیلے کرنی پڑتی ہے اور افطاری بھی۔ ایسے میں پاکستان بہت یاد آتا ہے۔ افطاری بناتے ہوئے چولہا ایک دم سے بجھ جاتا تھا، مشکل سے ایک پلیٹ پکوڑے بنتے تھے اور بقیہ کڑاہی میں ڈال کر روزہ کھولنے بیٹھ جاتے تھے۔ اذان کے ساتھ ہی ایک دم چولہے میں جیسے آگ بھڑک اٹھتی تھی۔ کبھی سمجھ نہیں آیا کہ یہ عین افطاری سے چالیس منٹ پہلے گیس کیسے چلی جاتی ہے اور عین افطاری کے وقت کیسے واپس آ جاتی ہے۔ کیا گرما گرم پکوڑے کھانا بھی عیاشی ہے؟
رمضان میں اکثر یوں بھی ہوتا تھا کہ ادھر ہم اذان سن کر منہ میں کھجور رکھتے ادھر دروازے کی گھنٹی بج اٹھتی۔ عموماً کوئی غریب عورت یا بچہ ہوتا تھا۔ امی افطاری کی ایک چھوٹی موٹی پلیٹ بنا کر دے دیتی تھیں جو وہ 'کئی دن کا بھوکا' ایک شاپر میں انڈیل کر اگلے گھر کی طرف چل پڑتا تھا۔ میں ان کی اس پرفیکٹ ٹائمنگ پر ہمیشہ حیران ہوا کرتی تھی۔
اس سال سفید پوشی کا یہ بھرم بھی رمضان سے پہلے ہی ختم ہو چکا ہے۔ جنہوں نے دینا دلانا تھا قرنطینہ میں دے دیا، کاروبار بند پڑے ہیں، نوکریاں وہی لگی بندھی ہیں، گھر کے خرچے دگنے ہو چکے ہیں، اپنا پورا کریں یا کسی اور کی مدد کریں اور پھر کس کس کی مدد کریں؟ یہ کام تو حکومت کے کرنے والے ہیں۔ اپنے وسائل بھی محدود ہیں اور پہنچ بھی۔ اس سال ہو سکتا ہے بہت سے گھر افطاری کے وقت بجنے والی گھنٹیوں کو نظر انداز کر دیں۔
اس سال عید بھی روزوں کے اختتام پر نہیں بلکہ کرونا کی وفات پر منائی جائے گی۔ علما کو اس بات سے اختلاف ہو سکتا ہے پر کیا کریں اب تو زندگی کی واحد خوشی یہی ہے۔ اللہ ہم سب کو یہ خوشی جلد از جلد دکھائے، آمین۔
تاریخ میں ایسا بھی پہلی بار ہوگا کہ جانو اپنے جانو کو مسجد جانے سے روکے گی۔ گرچہ علما کرام نے بہت مشکل سے مساجد کھلوانے کا انتظام کیا ہے لیکن دیکھو تم مسجد نہ جانا۔ اللہ صرف مسجد میں نہیں ملتا، گھر کے سب سے تاریک کونے میں بھی مل جاتا ہے۔
اس مشکل وقت میں اپنے مسیحی اور ہندو بہن بھائیوں سے کچھ سیکھو۔ ان کی عبادت گاہیں تو ایک نوٹیفکیشن پر بند کر دی گئیں تھیں۔ ان کے مذاہب تو خطرے میں نہیں پڑے لیکن ہمارا اسلام خطرے میں پڑ گیا۔ اتنا کمزور تو کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ کوئی بدبخت کہہ رہا ہے کہ اسلام نہیں ملا کی روزی خطرے میں ہے۔ آپ یہ بلاگ شئیر کریں، میں ذرا اس بد بخت کا منہ توڑ آؤں۔