وبا کے دن بھی عجیب ہیں۔ انسان تو انسان، اب تو وٹس ایپ بھی بور ہو گیا ہے۔ ایسے لگ رہا ہے جیسے پورے ملک میں ایک ہی مِیم، ایک ہی تصویر اور ایک ہی لطیفہ گھوم رہا ہے۔
اور لطیفے بھی ایسے بور کہ پڑھ کر ہنسی ہی نہیں آتی۔ فرصت اتنی ہے کہ سمجھ نہ آنے پر لطیفہ بھیجنے والے سے لطیفہ سمجھانے کی فرمائش کر دیتے ہیں۔ وہ الگ بات کہ آئندہ اس کانٹیکٹ کی طرف سے ہمیں کوئی لطیفہ موصول نہیں ہوتا۔
اب یہی لطیفہ دیکھ لیں:
’آج کل وظیفوں کی بھرمار ہے۔۔۔۔
بیگم پوچھ رہی تھی کوئی وظیفہ بتا دیں۔
ہم نے رٹوا دیا: اللھم اعط زوجی زوجۃ اخری۔
(یا اللہ میرے خاوند کو دوسری بیوی عطا فرما)۔
اب وظیفہ جاری ہے۔۔۔۔
اللہ خیر کرے۔‘
ہم نے لطیفہ بھیجنے والے سے لطیفہ سمجھانے کا کہا تو اس نے جواب میں لکھا، زیادہ فیمینسٹ نہ بنو، لطیفوں سے لطف اٹھانا سیکھو۔ بھائی عورت کو کم عقل ہوتی ہے نا۔ اب مرد اسے نہیں سمجھائے گا تو کون سمجھائے گا؟
خیر یہ تو روز کا قصہ ہے، لطیفے پر آتے ہیں۔ یہ لطیفہ وٹس ایپ کیا، فیس بک اور ٹوئٹر تک رُل چکا ہے۔ آپ نے بھی کہیں نہ کہیں دیکھا ہی ہوگا۔ آپ شاید ہنسے بھی ہوں۔ اس کا امکان بھی صرف اس صورت میں ہے اگر یہ لطیفہ آپ کو اپنے بہنوئی یا داماد کی طرف سے موصول نہ ہوا ہو۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہم وہ قوم ہیں جو عورت کی سب سے زیادہ عزت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر ہماری حرکتیں اور باتیں ہمارے اس دعوے کا ساتھ نہیں دیتی۔ ہمارے لطیفوں میں یا تو عورت کا مذاق اڑایا جا رہا ہوتا ہے یا اسے دھمکایا جا رہا ہوتا ہے۔ اس لطیفے میں دونوں کام ہو رہے ہیں۔
لطیفوں کے علاوہ ہماری گالیاں بھی عورت کے وجود سے ہی منسلک ہوتی ہیں۔ لطیفہ تو یہاں بیان کیا جا سکتا ہے، گالی نہیں لکھی جا سکتی، اس کے لیے آپ کو اپنے حافظے کا ہی سہارہ لینا پڑے گا۔
زیادہ تر لطائف مردوں کی دوسری شادی کے متعلق ہی بنائے جاتے ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ مسلمان مردوں کو پہلی شادی سے زیادہ دوسری شادی کا شوق ہوتا ہے۔ ہمارے خیال میں تو یہ ایک بھی شادی کے قابل نہیں، پر خیر وہ ایک الگ موضوع ہے، پھر سہی۔ ہمارے معاشرے نے عورتوں کی طرح ان کے لیے بھی سخت معیار بنائے ہوتے تو یہ اپنے نکاح کے لیے سو نفل پڑھنے کی منت مانا کرتے۔
قسمت سے ان کی پیدائش ایک ایسے معاشرے میں ہوئی ہے جہاں ان کا پیدا ہونا ہی ان کا سب سے بڑا احسان مانا جاتا ہے۔ اب ان کے منہ سے پھول جھڑیں یا پتھر، ہر چیز ہنس کر قبول کر لی جاتی ہے۔ یہ تو پھر ’لطیفہ‘ ہے۔
یہاں ایک اور لطیفہ یاد آ گیا۔ آپ بھی پڑھیں۔
ایک آدمی زار و قطار رو رہا تھا۔ اس کے دوست نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا، ’میری گرل فرینڈ کی شادی ہو گئی ہے۔‘
دوست نے پوچھا، ’کس سے؟‘
آدمی نے جواب دیا، ’مجھ سے!‘
یہ کافی پرانا اور مقبول لطیفہ ہے۔ حسنِ اتفاق کہیے، ایسے لطیفے ہمیشہ مرد ہی سناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہمیں کوئی ایسے لطیفے سنائے تو ہم ایسے انجان بن جاتے ہیں جیسے یہ ہمیں سمجھ ہی نہیں آئے۔ پھر لطیفہ بھیجنے والے کو اپنا لطیفہ ہمیں سمجھانا پڑتا ہے۔ اکثر اوقات میں لطیفہ سمجھاتے سمجھاتے انہیں خود اس کی تلخی محسوس ہونے لگ جاتی ہے۔
آپ ان لطیفوں میں جنس تبدیل کر کے دیکھ لیں، آپ کو ان کے اندر چھپی غلاظتیں صاف نظر آنا شروع ہو جائیں گی۔
پہلے والے لطیفے کو ہی تبدیل کر کے دیکھتے ہیں۔
’آج کل وظیفوں کی بھرمار ہے۔۔۔۔
شوہر پوچھ رہے تھے کوئی وظیفہ بتا دیں۔
ہم نے رٹوا دیا: اللھم اعط زوجتی زوج افضل منی۔
(یا اللہ میری بیوی کو مجھ سے بہتر خاوند عطا فرما)۔
اب وظیفہ جاری ہے۔۔۔۔
اللہ خیر کرے۔‘
چونکہ اسلام میں خواتین کی ایک وقت میں ایک ہی شادی ہو سکتی ہے تو دعا میں بھی تھوڑی سی تبدیل کرنی پڑی۔ یقیناً یہ لطیفہ آپ کو بالکل اچھا نہیں لگا ہوگا۔ ہمیں بھی آپ کے بنائے لطیفے اچھے نہیں لگتے۔ لطیفے بنائیں لیکن اس دوران دماغ کا بھی استعمال کر لیں، بہترین لطیفہ تیار ہو گا۔
خواتین کی عزت کرنے کا دعویٰ کرنے میں تو بہت آسان ہے لیکن نبھانے میں بہت مشکل۔ چلیں تھوڑا آسان کام کرتے ہیں، خواتین کی عزت کرنے کی بجائے اپنی عزت کرنا شروع کر دیں۔ اپنے رشتوں کو احترام دینا سیکھیں، آپ کی حسِ مزاح خود بخود ٹھیک ہو جائے گی۔
اور اگر کوئی ایسا لطیفہ بھیجے تو اسے فوراً کہیں کہ بھائی ذرا یہ لطیفہ تو سمجھا دو۔