کرونا (کورونا) وبا کے باعث لاک ڈاؤن کی وجہ سے جہاں کچھ آن لائن کاروبار چمک اٹھے ہیں، وہیں بہت سے کاروبار مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا کی کچھ کاروباری خواتین نے اس سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ گفتگو میں حکومت سے مدد کی درخواست کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر بروقت کسی ریلیف فنڈ یا قرضے کا اعلان نہ ہوا تو بہت سی خواتین شدید ذہنی مسائل کا شکار ہو سکتی ہیں۔
ان میں سے بعض خواتین اپنے گھر کی واحد کفیل ہیں اور انھوں نے اپنی ساری جمع پونجی کاروبار پر لگا دی ہے۔
دوسری جانب بڑے کاروبار کرنے والی کچھ خواتین کا کہنا ہے کہ وہ لاکھوں روپیہ کرایہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ملازمین کو تنخواہیں بھی دے رہی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پشاور کی ایک ریسٹورنٹ کی مالکہ کے مطابق انہیں مارچ اور اپریل کی تنخواہیں اور کرایے دینے کے لیے اپنے زیورات بیچنے پڑے۔
ان کا کہنا ہے کہ اب نوبت کاروبار بند کرنے تک پہنچ گئی ہے۔
روز خان ایک جم چلاتی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں ایک عورت کے لیے کاروبار کرنا پہلے ہی اتنا آسان نہیں ہے۔ تاہم جب انہوں نے دن رات اپنے کاروبار کو اس مقام تک پہنچایا کہ انہیں تھوڑا بہت منافع ہونے لگا تو اسی دوران کرونا وبا آ گئی، جس کی وجہ سے انہیں جم بند کرنا پڑا۔
’میرے شوہر بیمار رہتے ہیں اور میں گھر اور بچوں کی ذمہ داریاں خود اٹھاتی ہوں۔ میرا بہت نقصان ہوا ہے۔ میں کرایہ نہیں دے پا رہی ہوں۔ میرے بل ایسے ہی پڑے ہوئے ہیں۔ گھر کا کرایہ الگ دینا پڑ رہا ہے۔ ہم سفید پوش لوگ ہیں، کسی سے کچھ مانگ بھی نہیں سکتے۔'
روز خان نے حکومت سے درخواست کی کہ ان کے لیے گرانٹ یا قرضے فراہم کیے جائیں۔
لبنی کرونا وبا سے پہلے اپنا بوتیک چلاتی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ مہینے پہلے ان کے شوہر کا انتقال ہوا تھا۔
'میں بوتیک کے ذریعے اپنا خرچہ چلاتی تھی اور کسی کا محتاج نہیں ہونا پڑ رہا تھا۔ تاہم یہ آسرا بھی اب نہیں رہا۔'
کئی برسوں سے پشاور کی بزنس ایسوسی ایشنز سے وابستہ نیلوفر سمیع کا کہنا ہے کہ اگرچہ حکومت نے ایک ریلیف پیکج کا اعلان کیا ہے لیکن اس کا طریقہ
کار بہت مشکل ہے اور اس سے چھوٹے کاروبار کرنے والی خواتین فائدہ نہیں اٹھا سکتیں۔
’اگر حکومت کسی گرانٹ کی منظوری دے تو اس سے ہمارے بل اور کرائے وغیرہ ادا ہو سکیں گے بلکہ بعض خواتین نئے آن لائن کاروبار بھی شروع کرنے کی اہل ہو سکتی ہیں۔‘
ان کاروباری خواتین نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے باوجود ان سے کمرشل اور دیگر کرائے وصول کیے جا رہے ہیں۔ 'اگر صرف کرائے بھی معاف کر دیے جائیں تو ان کے لیے بہت آسانی پیدا ہو سکتی ہے۔'