لاک ڈاؤن کے پہلے چند دن تو بہت بہترین گزرے۔ نہ دفتر کے لیے صبح تیاری کا جھنٹجھٹ، نہ ٹریفک کا شور و غل۔ اس دوران طرح طرح کے کھانے بنائے گئے۔ گیمز کھیلی گئیں۔ ذہنی آزمائش کے مقابلے ہوئے۔ ایسے کھیل جو لوگ بھول چکے تھے وہ بچوں کے ساتھ کھیلی گئیں۔
مگر کب تک یہ سب کچھ چلتا۔ پندرہ دن تک سب نے برداشت کیا، پھر وہ وقت آیا جب سبھی چاہ رہے تھے کہ یہ لاک ڈاﺅن ختم ہو۔ دفتر والوں کو دفتر کی یاد آنے لگی، طلبہ آن لائن لیکچر سے بور ہو گئے تھے تو اساتذہ بھی ایک عجیب پریشانی کا شکار تھے۔ مگر کیا کرتے، گھر سے باہر موت کا راج تھا۔
لاک ڈاﺅن کے پہلے دنوں میں میں خود پہلے کچھ دن بہت ایزی محسوس کر رہا تھا کیونکہ 15 سالہ ملازمت میں پہلی دفعہ اتنی زیادہ چھٹیاں گاﺅں میں گزار رہا تھا۔ کچھ لوگ ملے جنہوں نے کہا کہ ’بیٹا دبئی سے کب آئے ہو۔ گاﺅں کو تو بالکل ہی بھول گئے ہو۔ پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ گاﺅں اور گھر والے بھی اہم ہیں۔‘
حالانکہ دبئی سے میں 2007 میں چلا آیا تھا مگر لوگوں کو معلوم نہیں تھا۔ کچھ نے صحافت کے بارے پوچھا کہ بیٹا آج کل کس اخبار میں کام کرتے ہو۔ حالانکہ دس سال پہلے میں اخبار میں کام کرنا بھی چھوڑ چکا ہوں۔ مجھے عجیب سا لگ رہا تھا جب گاﺅں کی گلیوں میں کچھ دنوں کو گھوما پھرا، دوستوں سے باتیں ہوئیں۔ پھر ایک فیصلہ کیا کہ ایسے نہیں چلے گا، کچھ نہ کچھ کام کرتے ہیں اور اس لاک ڈاﺅن کو یادگار بناتے ہیں۔
سو اپنی تحریریں نکالیں کہ دیکھتے ہیں کہ ہم نے بچوں کے لیے کیا لکھا تھا۔ پھر یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ہم نے بچپن میں بچوں کے لیے کافی اچھا کچھ لکھا ہے۔ کہانیا ں دیکھ کر خود پر رشک آرہا تھا۔ کیونکہ بچپن سے بچوں کے لیے لکھتا آ رہا ہوں۔ وہ سارا ریکارڈ گھر کے گوداموں میں کہیں پڑا ہوا تھا۔ وہ بند گودام کھولے وہاں سے وہ پیٹیاں نکالیں جس میں اخبارات اور رسائل رکھے تھے۔ ایک ایک کر کے سارے کنگالے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ریکارڈ تو مل گیا مگر اسے دیکھ کر پرانے دوست یاد آنے لگے۔ انہیں سوشل میڈیا پر تلاش کیا تو بچپن میں لکھنے والے دوست سامنے آتے گئے اور اس لاک ڈاﺅن کے دوران 90 کی دہائی کے دوست جو بچوں کے لیے لکھتے تھے، وہ سامنے آئے۔
ان سے بہت سے ایسے تے جنہوں نے بچوں کے لیے لکھنا چھوڑ دیا ہے اور اب غم روزگار اور کچھ غم جاناں میں مصروف ہیں۔ انشاءاللہ لاک ڈاﺅن کے بعد ان سے ملاقات کی کوشش ہو گی۔
اس لاک ڈاﺅن میں یونیورسٹی فیلوز کالج فیلوز اور سکول فیلوز کو کافی عرصہ بعد دیکھا بلکہ ان میں بعض سے فون پر لمبی لمبی بات ہو گئی، اور یہ ساری کرامت لاک ڈاؤن کی تھی، ورنہ یہ کام ویسے زندگی کے جھمیلوں میں پڑ کر ممکن نہیں تھا۔
اس کے بعد ہم نے ایک ٹائم ٹیبل کے مطابق وقت گزارنا شروع کر دیا، جس میں سب کاموں کے لیے وقت دیا گیا تھا۔ بازار جانے کے لیے بھی وقت تھا۔ دوستوں کے لیے وقت تھا۔ دوستوں سے ملنا بھی طے تھا کیونکہ انہیں بھی بہت عرصہ کے بعد چھٹیاں ملی تھیں۔
بعد میں ایسا ہوا کہ جب ہم نے کچھ دوستوں کو مفت مشورہ دینے کی کوشش کی کہ ’گھر میں رہو محفوظ رہو‘ تو وہ اس پر برا مان گئے، اور ابھی تک وہ ناراض ہی ہیں۔
بچوں کو پڑھانا شروع کیا۔ ساتھ میں آن لائن کلاسز ہوتی رہیں۔ جو بہترین کام رہا۔
لیکن سب سے اچھا کام جو اس لاک ڈاﺅن کے درمیان ہوا وہ گاﺅں میں غریبوں کی مدد کرنا تھی۔ اس کرونا وائرس نے مجھے گاﺅں والوں کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر دیا حالانکہ میرے گاؤں ٹیری کے لوگ ایک پلیٹ فارم پر کبھی بھی اتنا عرصہ تک اکٹھے نہیں رہتے، مگر جب بات غریب، مساکین اور دیہاڑی دار مزدوروں کی مدد کی آئی تو گاؤں اور ملک کے اندر اور ملک سے باہر بسنے والے ٹیری والوں کا جذبہ قابل دید رہا۔
ہر ایک نے اپنی جانب سے محنت کی اور قلیل مدت میں صرف ٹیری سے محبت کرنے والوں نے لاکھوں روپے مہیا کر لیے جس کے پہلے مرحلے میں 185 خاندانوں میں فوڈ پیکجز تقسیم کیے۔ ان خاندانوں کا ڈیٹا بہ نفس نفیس جا کر ڈھونڈا گیا۔ لوگوں سے معلومات لی گئیں اور تب جا کر ناداروں کی فہرست مرتب کی گئی اور ایک اندازے کے مطابق رمضان المبارک کے مہینے تک ہمیں بیرون اور اندرون ملک سے 25 لاکھ روپے ملے جو سب ناداروں اور مساکین تک پہنچ بھی گئے۔ گویا اس کرونا نے ہم سے ایک بہترین کام لیا، یعنی لوگوں کی مدد۔
اور پھر ایک اعلان ہوا کہ لاک ڈاﺅن ختم ہو گیا ہے۔ مگر امید ہے کہ ہماری اس کاوش میں کوئی لاک ڈاؤن کبھی نہیں آئے گا اب ہم دوست مل کر اس سلسلے کو ایک ٹرسٹ کی شکل میں چلائیں گے۔ یہ لاک ڈاؤن تو حکومت کے اعلان کے بعد جزوی طور پر ختم ہو گیا مگر اب یہ دعا ہے کہ اللہ لوگوں کے کام آنے ناداروں کی مدد کرنے میں کبھی بھی لاک ڈاؤن نہ لائے۔