پی آر او : شہزاد صاحب کہاں پر ہیں؟ میں وزیر صحت کا پی آر او بات کر رہا ہوں۔
شہزاد: جی جی، کیسے ہیں آپ؟
پی آر او: اللہ کا شکر ہے جناب۔
پی آر او: شہزاد صاحب پولیس لائن ہسپتال میں کرونا (کورونا) کے حوالے سے دو بجے وزیر صحت کی پریس کانفرنس ہے، آپ نے ضرور آنا ہے۔
شہزاد: میری تو آج چھٹی ہے مگر ہمارا کوئی نہ کوئی رپورٹر آجائے گا۔ فکر نہ کریں۔
پی آر او: شہزاد صاحب اگر آپ خود آجائیں تو بڑی مہربانی ہوگی کیونکہ آپ کا چینل ہمیں بہترین کوریج دیتا ہے۔ وزیر صاحب بھی آپ کی رپورٹنگ سے کافی خوش ہیں اور تاکید کی ہے کہ شہزاد ضرور آئیں، لہذا کچھ کریں مہربانی ہوگی۔ وزیر صاحب آپ کو خود بھی کال کرلیں گے۔
شہزاد: نہیں نہیں، اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں کچھ کرتا ہوں۔
پی آر او: شکریہ شہزاد بھائی، انتطار رہے گا۔ والسلام
اور یوں شہزاد اپنی چھٹی کو کینسل کرکے پریس کانفرنس میں چلا جاتا ہے جہاں وہ وزیر صحت کی پریس بریفنگ میں شرکت کرکے انہیں اچھی کوریج دیتا ہے۔ وزیر صاحب اس سے ملتے ہیں، شاباش دیتے ہیں مگر کچھ دن کے بعد اسی رپورٹر کا کرونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آجاتا ہے اور وہ گھر میں قرنطینہ میں چلا جاتا ہے۔
اس دوران نہ تو کسی حکومتی عہدیدار، نہ وزیر صحت اور نہ ہی ان کے پی آر او کی جانب سے طبیعت پوچھنے کے لیے کوئی کال آتی ہے جن کی پریس کانفرنسز کے لیے روزانہ فون کالیں آتی تھیں، لیکن اب جب صحافی پر آن پڑی تو کوئی داد رسی نہیں۔
یہ صرف کہانی نہیں بلکہ حقیقت ہے، جہاں صحافیوں کو کوریج کے لیے فون آتے ہیں، مگر مشکل وقت میں انہیں کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ ہاں اگر صحافت میں عہدہ بڑا ہے تو پوچھنے والوں کی ایک قطار لگی رہتی ہے۔ مگر عام صحافی، عام صحافی ہی ہوتے ہیں عام لوگوں کی طرح۔
اس حوالے سے اگر بات کی جائے تو پشاور میں خاص صحافی چند ہی ہیں، باقی سارے عام صحافی ہیں اور ان عام صحافیوں نے بہت مشکلات میں صحافت کی ہ ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو، سیلاب ہو، متاثرین آپریشن ہو یا پھر حالیہ کرونا وائرس کی رپورٹنگ ہو۔ یہ حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے ہیں، مگر جب یہ عام صحافی کسی مشکل میں پڑجاتے ہیں تو ان کی کوئی نہیں سنتا۔
ایساہی کچھ پشاور میں کرونا کے شکار ہونے والے صحافیوں کے ساتھ ہو رہا ہے، جن سے حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی رابطہ نہیں کیا گیا کہ وہ کیسے ہیں؟ انہیں کسی قسم کی ضرورت تو نہیں؟ صحت کے حوالے سے انہیں کوئی سہولت تو درکار نہیں؟ اگر گھر میں وہ قرنطینہ میں نہیں رہ سکتے تو کیا کسی ہسپتال میں ان کے لیے بندوبست کیا جائے؟ مگر انہیں ابھی تک خیریت کی کال نہیں آئی باقی باتیں تو دور کی ہیں۔ چونکہ یہ جو صحافی 'کرونائزڈ' ہوچکے ہیں اور عام صحافیوں کے زمرے میں آتے ہیں، لہذا ان سے بات کرکے شاید زعما کی عزت کم ہوتی ہے۔
اس وقت پشاور میں مجموعی طور پر سات صحافی اپنی صحافتی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے کرونا وائرس کا شکار ہوچکے ہیں جبکہ پاکستان بھر میں 40 صحافیوں کے کرونا ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔ سندھ میں ایک صحافی کی وفات بھی ہوچکی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پشاور کے صحافی آصف شہزاد سمیت ان کے تین بھائی بھی کرونا وائرس کا شکار ہوگئے ہیں جو سب ایک ہی گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ ان میں واجد شہزاد بھی پیشے کے لحاظ سے صحافی ہیں جبکہ ایک بھائی ڈاکٹر ہیں۔ آصف شہزاد کا کرونا ٹیسٹ گذشتہ ہفتے مثبت آیا تھا مگر اس کے باوجود ابھی تک ضلعی انتظامیہ (ڈپٹی یا اسسٹنٹ کمشنر) یا ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس سے کسی نے متاثرہ خاندان سے رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی انہیں ماسک وغیرہ فراہم کیے گئے ہیں۔آصف شہزاد نے اپنے تعلقات کی بنیاد پر ریسکیو 1122 کو بلوا کر گھر میں جراثیم کش سپرے کروایا، لیکن جو پی آر اوز پریس کانفرنسوں کے لیے انہیں درجنوں کال کرتے تھے، ان کی جانب سے خیریت پوچھنے کے لیے ایک کال بھی نہیں آئی۔
اس حوالے سے آصف شہزاد سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ 'غیروں سے کیا گلہ، اپنے پریس کلب کے بھائیوں نے بھی کوئی رابطہ نہیں کیا۔ صرف خیبر یونین کے جنرل سیکرٹری عمران یوسف زئی بحثییت ایک دوست کے رابطے میں ہیں، باقی یونینز کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ ہمارے اپنے صحافی بھائیوں میں اتفاق نہیں تو اوروں سے کیا گلہ کرنا۔'
آصف نے کہا: 'کرونا وائرس نے مجھے یہ دکھا دیا ہے کہ کون اپنا ہے اور کون پرایا۔ ہم جب فیلڈ میں ہوتے ہیں تو سب کے لیے خاص ہوتے ہیں مگر جب فیلڈ سے باہر ہوتے ہیں تو عام بن جاتے ہیں۔' تاہم انہوں نے بتایا کہ ان کے چینل کے مالک روزانہ کال کرکے ان سے خیریت پوچھتے ہیں جبکہ دوسرے بھائی کے ساتھ ڈائریکٹر نیوز رابطے میں ہیں۔
ایک اور خاتون صحافی ثمینہ کا بھی کرونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔ثمینہ فری لانس صحافی ہیں اور مختلف اداروں کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ انہوں نے پولیس لائن ہسپتال میں ڈاکٹروں کے رویے پر تنقید کی کہ جب وہ ٹیسٹ کے لیے گئیں تو ان کے ساتھ بدتمیزی کی گئی، جس کی ویڈیو بھی وہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کرچکی ہیں۔
ثمینہ کا کہنا تھا کہ 'مجھے اپنی حیثیت اس وقت معلوم ہوئی جب میں ٹیسٹ کے لیے پولیس لائن گئی تھی۔ ان کے رویے نے مجھے توڑ کر رکھ دیا تھا۔'
انہوں نے بتایا کہ 'ڈپٹی کمشنر پشاورکے آفس سے گذشتہ روز کچھ دودھ کے ڈبے گھر پہنچائے گئے ہیں اور ساتھ میں ہدایات دی گئیں کہ دودھ زیادہ پیا کرو اس سے قوت مدافعت ٹھیک رہتی ہے باقی ابھی تک کسی نے کوئی رابطہ نہیں کیا ۔یعنی ہم صحافیوں کی اوقات کچھ دودھ کے ڈبے ہیں۔'
ثمینہ نے بھی وہی بات کی کہ ہماری عزت تب تک ہے جب تک ہم ان کے کام آتے ہیں۔
مشیر اطلاعات اجمل وزیر کی طرف سے بھی صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کیے گئے بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود اس طرح پراسرار خاموشی چھائی ہوئی ہے جیسے حکومت کو کسی بات کا علم ہی نہ ہو یا خدانخواستہ حکومت ہی نہ ہو۔