پاکستان کے قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان میں پشتون تحفظ موومنٹ اور شدت پسند طالبان کی ایک ساتھ موجودگی میں امن وامان برقرار رکھنے کی کوششیں بے سود ثابت رہی ہیں۔
وانا میں عارف وزیر کی ہلاکت کے بعد پشتون تحفظ موومنٹ اور شدت پسند طالبان ایک دوسرے کو دُشمن سمجھنے لگے ہیں۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں نے واضح کیا ہے کہ وانا میں ان کا دُشمن علاقے میں موجود ’اچھے‘ طالبان ہیں اور اسی کے کہنے پر پی ٹی ایم کے جوانوں کو ہدف بنا کر مارا جا رہا ہے۔
پی ٹی ایم کے سرکردہ رہنما عبداللہ ننگیال نے کہا ہے کہ وانا میں اچھے طالبان کا ایک بڑا مرکز اور مختلف علاقوں میں چار دفاتر موجود ہیں۔
’طالبان ان مراکز سے نہ صرف پی ٹی ایم کے خلاف کارروائیاں کرنے میں مصروف ہیں بلکہ عام شہری بھی ان مراکز سے متاثر ہو رہے۔ انہوں کہا کہ اگر علاقے میں امن قائم کرنا ہے تو ان تمام دفاتر کو ختم کرنا ہوگا۔‘
انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ عارف وزیر کے قاتلوں کو بے نقاب کرکے گرفتار کیا جائے اور وانا بازارمیں کالے شیشوں والی گاڑیوں اور اسلحہ کی نمائش پر پابندی لگائی جائے۔
’جنوبی وزیرستان میں کرائے کے بدمعاشوں کے دفاتر بند نہ کیے گئے تو کسی بھی پشتون کی زندگی محفوظ نہیں ہو گی۔‘
انہوں نے کہا کہ وانا سے گڈ اور بیڈ طالبان کو نکالنا ایک قومی فریضہ ہے۔ اگر قوم نے یہ فرض ادا نہ کیا تو ایک دن پشتون تحفظ موومنٹ مجبور ہوکر ان کے دفاتر کو تالہ لگا دے گی۔
گذشتہ سال وانا میں پشتونتحفظ موومنٹ کے ایک جلسے پر فائرنگ کے بعد وانا بازار میں طالبان نے اپنے دفاتر بند کردیے تھے البتہ اعظم ورسک،کڑی کوٹ اور وانا سکاؤٹس کیمپ کے قریب پیر باغ اور دانہ میں ان کے دفاتر بدستور موجود ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وانا میں دو قوتیں آمنے سامنے ہیں۔ ایک قوت کے پاس بندوق ہے اور دوسری قوت کے پاس آواز اور نعرے ہیں۔ اب پتہ چلے گا کہ بندوق والے بازی ماریں گے یا نعرے لگانے والے جیتیں گے۔
مگر لوگوں کو یہ تشویش ضرور ہے کہ بندوق والوں کے پیچھے ایک اور بندوق کی طاقت موجود ہے جس کے سامنے آواز کی طاقت بے بس نظر آ رہی ہے۔ پھر بھی ان کو اُمید ہے کہ گولی سے آواز کو دبایا نہیں جا سکتا بلکہ اس میں جان آئے گی اور ہوسکتا ہے یہ آواز ہر جگہ سے بلند ہو۔
سیاسی رہنماؤں میں عوامی نیشنل پارٹی کے ایاز وزیر، پیپلز پارٹی کے امان االلہ کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ طالبان کے بغیر اپنی رٹ بحال کرے اور عوام کو قانون ہاتھ میں لینے پر مجبور نہ کرے۔ اب ایف سی ار ختم ہوچکا ہے اور امن امان برقرار رکھنے کے لئے پولیس موجود ہے اس لیے طالبان یا امن کمیٹیوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
وقت بدلتا رہتا ہے کسی زمانے میں طالبان کے خلاف بولنا اسلام کے خلاف بولنا تھا۔ ایک زمانہ وہ تھا جب کسی خاندان کا کوئی فرد قتل ہوتا یا کسی کو اغوا کرنے کے بعد اسے قتل کرکے لاش پھینک دی جاتی تھی۔ لاش کے قریب پرچی ملتی تھی کہ یہ جاسوس تھا۔ پرچی پر یہ بھی لکھا ہوتا تھا کہ اگر کسی نے دو دن سے پہلے یہ لاش اٹھائی یا کسی نے اس کا جنازہ پڑھا تو اس کا بھی یہی حال ہوگا۔
ان حالات میں لوگ جنازے میں شرکت سے کتراتے تھے اور لاش اُٹھانے سے بھی ڈرتے تھے۔ آج وہ وقت نہیں رہا اور نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کو شہید قرار دیا ہے اور جنازے میں ہزاروں لوگ شریک ہوتے ہیں۔
وزیرستان میں ایسے سینکڑوں لوگ ہیں جو پہلے طالبان کو مجاہدین اور اسلام کے داعی قرار دیتے تھے اور اج وہ طالبان کے خلاف کھلم کھلا بول رہے ہیں اور ان کو دہشت گرد کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
میرا گھر وانا کے گاؤں کڑی کوٹ میں ہے۔ 2005 میں گرمی کا موسم تھا۔ ایک طرف طالبان کا زور تھا تو دوسری طرف نامعلوم افراد کا۔ سرکردہ افراد کی ٹارکٹ کِلنگ کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ کسی کو سمھج نہیں آرہی تھی کہ کون ٹھیک ہے اور کون غلط ہے۔
بس ایک خوف کی فضا تھی۔ میں ایک دن کڑی کوٹ جارہا تھا۔ تقریباً آدھے کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔ راستے میں میرے ایک رشتہ دار اورنگ زیب نے بتایا کہ وہ بہت پریشان ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ موت سے نہیں ڈرتے بلکہ ان کو یہ خوف ہے کہ اگر نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہوا تو لوگ منافق کہیں گے اور جنازے میں بھی نہیں آئیں گے۔ آج 15 سال بعد اورنگ زیب کی بات اُلٹی ہو گئی ہے۔ نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہونے والے شہید کہلاتے ہیں اور جنازے میں ہزاروں کا مجمع ہوتا ہے۔
بہرحال علاقے میں پائیدار امن کے لیے ضروری اقدامات اُٹھانے ہوں گے جس کے لیے قومی یکجہتی اور اخلاص کی ضرورت ہے۔ ورنہ حالات کسی دوسری طرف چلے جانے کا خدشہ ہے۔