’اپنی شادی سے بھاگنا ہے تو کریم بائیک کرو‘
پاکستان میں سفری سہولیات فراہم کرنے والی مشہور آن لائن کمپنی ’کریم‘ کی طرف سے اس ’بولڈ‘ اشتہار کے بعد سوشل میڈیا صارفین کی اکثریت نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے- کچھ لوگوں نے اس تصویر کو جعلی (فیک) سمجھا تو کسی نے اسے ہمسایہ ملک بھارت کا اشتہار قرار دے ڈالا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے معاملے کی حقیقت جاننے کے لیے کریم کی ترجمان مدیحہ قریشی سے بات کی تو انہوں نے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ اشتہار دراصل ہماری کمپنی کے اُن باقی اشتہارات کی ایک کڑی ہے جس کا مقصد مزاحیہ انداز میں بائیک سروس کی تشہیر کرنا تھا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہماری کمپنی کے باقی اشتہارات کو اگر ٹوئٹر ہیش ٹیگ کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ہم مزاح کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ آئیڈیا یہ تھا کہ ہم یہ کہہ کر توجہ حاصل کریں کہ اس بائیک سروس کو کسی بھی صورتحال میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘
پاکستان کے قدامت پسند معاشرے میں جہاں ہر سال ایک ہزار سے زائد خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے، عورت کو اس کی زندگی کے اہم اور بڑے فیصلوں کے حوالے سے بات کرنے کا حق نہیں ملتا، ایسے میں اس طرح کے اشتہار کے سامنے آنے سے لوگ بوکھلا ہٹ کا شکار ہوگئے اور اپنے اپنے انداز میں اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔
اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر عوام کی طرف سے کی گئی تنقید و تبصرے قابل توجہ ہیں۔
فریحہ اقبال نامی ایک خاتون نے لکھا، ’آخر انھوں نے کسی دولہے کے بھاگنے کا پیغام کیوں نہیں لگوایا؟ ہمیشہ عورت کے بھاگنے ہی کو کیوں دکھایا جاتا ہے۔ اب عورت مارچ والی دبنگ خواتین کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس کمپنی کو سبق سکھائے۔‘
ایک اور خاتون نے لکھا کہ ’اگر اس اشتہار میں دلہن کی بجائے دلہا ہوتا، تو بہت اچھا ہوجاتا۔‘
I guess ad mn agr dulhan ki bjaye dulha hota to it would be best one from #careem pic.twitter.com/CQsI2Y0iqd
— Maria khan (@mariaa_says) March 19, 2019
راشد نامی ایک صارف فرماتے ہیں، ’عورت کے حقوق کے نام پر پاکستان میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ جیسے کہ عورت مارچ 2019۔ آگے آگے دیکھیے ہماری تہذیب اور اقدار کا کیا حشر ہوتا ہے۔ ہم مغرب سے بہت متاثر ہیں ناں اس لیے۔‘
ناصر شعیب نامی ایک صارف نے لکھا، ’اسلامی جمہوریہ پاکستان (ریاست مدینہ) میں یہ ایک بہت شرمناک اشتہار ہے۔ حکومت سے درخواست ہے کہ وہ کریم کے اس اشتہار کا نوٹس لے۔ شرم و حیا اور سادگی جیسی اقدار ہمیں اسلام نے سکھائی ہیں۔‘ُ
very shameful advertisement in Islamic Republic of Pakistan (Reyasat-e- Madina). i appeal the government controlling authorities that take notice of #Careem advertisement. Modesty and simplicity are our values taught by Islam. pic.twitter.com/24HvUHess7
— Nasir Shuaib (@NasirShuaib2) March 19, 2019
سینئر صحافی انصار عباسی نے لکھا، ’بے ہودہ اشتہار پر کریم کا لائسنس منسوخ کیا جائے۔‘
بے ہودہ اشتہار پر سروس #Careem کا لائسنس منسوخ کیا جائے۔
— Ansar Abbasi (@AnsarAAbbasi) March 18, 2019
بہت سے صارفین نے تو ایک قدم آگئے بڑھتے ہوئے کریم کی موبائل فون ایپلیکیشن ہی اَن انسٹال کرنے کی مہم شروع کردی۔
After such ridiculous and controversial adds just do the same thing and chill
— Hammad Arshad (@ranahammad5369) March 18, 2019
You'll have to pay for it#Careem pic.twitter.com/X6KAiOx7B9
جہاں بہت سے لوگوں نے اس پر تنقید کی، وہیں کچھ لوگوں نے اس اشتہار میں چھپے اصل ’مقصد‘ کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی۔
معروف ٹی وی اینکر اور صحافی فریحہ ادریس نے لکھا، ’پرسکون رہیے، یہ صرف ایک کمرشل ہی تو ہے‘، انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی ناخوش ہو تو شادی سے انکار کرنا کوئی اتنی غصے والی بات بھی نہیں ہے۔‘
اطہر نامی ایک نوجوان نے لکھا کہ ’یہ اشتہار ایک بہت اچھی کوشش ہے کیونکہ پاکستان میں زبردستی کی شادیاں کرانے کا رواج بہت بڑھ گیا ہے۔‘
ایک خاتون نے اس اشتہار کے بہت سے مقاصد گنوا ڈالے، جن میں سے ایک یہ تھا کہ ’اس اشتہار کے ذریعے زبردستی کی شادیوں کے سماجی مسئلے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔‘
#Careem
— mueed☭ (@WhyMueed) March 18, 2019
I don't find this offensive at all.
1)It's humourous
2)on a serious note it describes the social issue of forced marriage
3) People marrying on free will never run away from their wedding , so stop criticising. pic.twitter.com/Ohz20BDGi3
عائشہ نامی ایک صارف نے لکھا کہ معلوم نہیں لوگوں کو اس اشتہار سے کیوں اتنی تکلیف ہورہی ہے۔
I don't get what happened to ppl's sense of humor, why are so many ppl offended by this ad? and let's say even if this actually happens then she/he wasn't happy with the wedding and it's their choice to call it off. Get a life please! #Careem pic.twitter.com/9QFia42zwc
— Ayesha Khan (@ayeshakhan04) March 18, 2019
جہاں بہت سے لوگوں نے اس اشتہار کو پاکستانی اور مسلمان معاشرے کے خلاف سمجھا، وہاں پلوشہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دراصل ہم بحیثیت معاشرہ تلخ سے تلخ تر ہوتے جارہے ہیں اور ہر بات میں منفی عنصر ڈھونڈتے ہیں۔‘
پلوشہ خیبرپختونخوا میں حقوق نسواں کے حوالے سے کافی متحرک ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ’معاشرے میں بہت سے لوگوں میں کسی چیز کی گہرائی میں جانے اور اس پیغام کو سمجھنے کی اہلیت نہیں ہے، یہی ’عورت مارچ‘ کے نعروں کے معاملے میں بھی ہوا۔ لوگوں نے اس کو سمجھا ہی نہیں۔ اس کی وجہ قدامت پسندی سے زیادہ تعلیم کی کمی بھی ہے۔‘