ترکی کی قدیم روایات میں سے ایک 'نیکی کی ٹوکری' بھی ہے، جس کے تحت ہر تندور پر ٹوکریاں رکھی ہوتی تھیں اور صاحب حیثیت لوگ ان میں روٹی اور کھانے کی دیگر چیزیں رکھ جاتے تھے۔ یوں اس اچھی روایت کی وجہ سے ضرورت مند افراد کھانا کھا لیتے تھے۔
ایسی ہی ایک ویڈیو سے متاثر ہو کر اسلام آباد کے علاقے بنی گالہ کے رہائشی ڈاکٹر محمد اخلاق کشفی نے مختلف تندوروں پر 'نیکی کی ٹوکریاں' رکھوائی ہیں، جن میں صاحب حیثیت لوگ اپنی استعداد کے مطابق اُسی تندور سے روٹیاں لے کر رکھ دیتے ہیں۔
ڈاکٹر اخلاق کا کہنا ہے کہ وہ 20 سال سے بنی گالہ میں رہ رہے ہیں۔ انہوں نے ایک صدقہ مرکز بنایا ہوا ہے اور وہ پچھلے سات سال سے اپنی بساط کے مطابق نیک کام کرتے آ رہے ہیں۔ 'میری نظر ترکی کی ایک تاریخی ویڈیو پر پڑی، جسے یقیناً بہت سے لوگوں نے سوشل میڈیا پر دیکھا ہوگا۔ یہ آئیڈیا مجھے اچھا لگا اور میں نے اس پر کام شروع کر دیا۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے تندور والوں سے کہا کہ وہ سامان لا کر دیں گے اور پیسے بھی دیں گے، بس اللہ کا نام لے کر شروع کریں اورجب کبھی کوئی غریب شخص روٹی لینے آئے تو انکار نہ کریں، اسے جتنی روٹی کی ضرورت ہو دے دیں اور اگر ٹوکری میں روٹی نہیں ہے تو میرے کھاتے میں لکھ لیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر اخلاق کے مطابق: 'ابھی تک کسی بھی تندور والے نے مجھے کوئی بل نہیں دیا۔ ان کے پاس ہمارے پچھلے پیسے تاحال پڑے ہیں کیونکہ دوسرے صاحب حیثیت لوگ پیسے دیتے رہتے ہیں اور ٹوکری میں روٹیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔'
انہوں نے بتایا کہ 'میں نے اپنے تمام صاحب حیثیت دوستوں سے درخواست کی تھی کہ اس کارِ خیر میں حصہ لیں، جس پر کافی دوستوں نے کئی تندوروں کا ذمہ لے لیا ہے۔'
'پہلے ہم صرف روٹی دے رہے تھے لیکن اب روٹی کے ساتھ سالن بھی مہیا کر رہے ہیں۔ نہ صرف صاحب حیثیت افراد بلکہ تندور مالکان خود بھی نیکی کی ٹوکری میں حصہ ڈال رہے ہیں۔'
ایک تندور مالک سردارعظیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اب اکثرعلاقہ مکین جب روٹیاں لینے تندور پر آتے ہیں تو اپنی طرف سے دو چار روٹیاں نیکی کی ٹوکری میں ڈال جاتے ہیں، کبھی کبھار ایسا بھی دیکھنے میں آیا کہ روٹیاں زیادہ ہو جاتی ہیں اور ضرورت مند کم پڑ جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اگر روٹیاں بڑھ جائیں تو وہ انہیں بیچ کر پیسے اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور انہی پیسوں سے اگلے روز دوبارہ روٹیاں ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں۔
بنی گالہ میں نیکی کی ٹوکریوں کا سلسلہ شروع کرنے والے ڈاکٹر اخلاق بتاتے ہیں کہ اس کام میں کوئی خاص خرچہ نہیں ہے۔ 'الحمداللہ کام بڑا اچھا چل رہا ہے، اب تک کوئی شکایت نہیں آئی کہ کسی نے ضرورت سے زیادہ روٹیاں یا سالن لے لیا۔'
'پہلے میں اکیلا ایک صدقہ مرکز چلاتا تھا۔ اب یوں سمجھیے کہ مزید پانچ صدقہ مرکز بن گئے ہیں کیونکہ ہر تندور خود ایک صدقہ مرکز ہے۔'
ڈاکٹر اخلاق کی دلی خواہش ہے کہ پاکستان میں ہر تندور پر نیکی کی ٹوکری رکھی جائے۔ 'ہرعلاقے میں آٹھ، دس تندور ہوتے ہیں۔ اگر ایک بندہ صرف اتنی ذمہ داری اٹھا لے کہ تندور پر ٹوکری اور کپڑا پہنچا دے تو انشاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ پاکستان میں کوئی انسان بھوکا نہیں سوئے گا۔'