’چھ روپے کی روٹی فروخت کرتا تھا لیکن اب مہنگائی اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ اب مجھے یہ روٹی پلانٹ چلانا مشکل ہوگیا ہے اور مجھے اس پلانٹ کو بند کرنا پڑ گیا ہے۔‘
یہ کہنا تھا سوات کے رہائشی شیر مالک کا جنھوں نے نو مہینے پہلے سوات مین ملاکنڈ ڈویژن کا پہلا روٹی پلانٹ لگایا تھا جو عوام کو چھ روپے پر 120 گرام کی روٹی فروخت کرتا تھا۔
تاہم شیر مالک نے اب فیصلہ کیا ہے کہ وہ پلانٹ کو بند کردیں۔ شیر مالک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پہلے 20 کلو آٹے کی تھیلی 800 روپے پر ملتی تھی لیکن اب وہ 1200 روپے تک ملتی ہے۔
اسی طرح پلانٹ چونکہ گیس پر چلتا ہے تو گیس کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’پہلے 15 کلو کا ایل پی جی سلنڈر 1500 کا ہوتا تھا اور اب 2500 کا ملتا ہے ۔ اسی وجہ سے بہتر میں نے یہی سمجھا کہ اپنی کمر توڑنے سے بہتر ہے پلانٹ کو بند کر دیا جائے۔‘
شیر مالک نے بتایا کہ وہ سعودی عرب میں کام کرتے تھے اور یہاں آکر عوام کے فائدے کے لیے یہ پلانٹ لگایا تاکہ عوام کو بھی سہولت ہو سکے اور ان کا کاروبار بھی چلتا رہے۔
حکومتی دعووں کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ حکومت دعوے تو کرتی ہے کہ وہ آٹے پر سبسڈی دے رہی ہے لیکن اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انھوں نے بتایا کہ جس مل یا دکاندار کے پاس میں جاتا ہوں وہاں انھوں نے برائے نام بینرز لگائے ہوئے ہیں کہ 20 کلو آٹے کی تھیلی 780 پر ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس پلانٹ پر 20 لاکھ کا خرچہ ہوا ہے اور عوام ہی کے لیے میں نے لگایا تھا لیکن میں مزید اس کو نہیں چلا سکتا۔
شیر مالک نے دوہفتے قبل انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ان کا کام اچھا چل رہا ہے اور لوگوں کو فائدہ بھی پہنچ رہا ہے تاہم انھوں نے بدھ کے روز پلانٹ بند کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک مہینے میں آٹے کی تھیلی کی قیمت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور اس وجہ سے اب پلانٹ چلانا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔
شیر مالک کے ہوٹل میں روایتی تندور بھی بنا ہوا ہے۔ اور اب وہ پلانٹ کے بجائے اس روایتی تندور میں دوبارہ روٹیاں پکانے کا کام شروع کریں گے اور جو قیمت عام بازار میں روٹی کی ہے وہی قیمت اس ہوٹل میں بھی ہوگی۔