پنجاب حکومت کی جانب سے لاہور کے ایک پوش علاقے میں انڈر پاس تعمیر کرنے کا ٹھیکہ اسی کمپنی کو دیا گیا ہے جو گذشتہ تین سالوں سے پشاور بی آر ٹی منصوبے پر کام کر رہی ہے۔
یہ انڈر پاس فردوس مارکیٹ گلبرگ کے مقام پر تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو سینٹر پوائنٹ سے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کی طرف جانے والی شاہراہ پر تعمیر کیا جائے گا۔
تعمیراتی کمپنی کو اس منصوبے کی تکمیل کے لیے چار ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔
اس منصوبہ کی کل لاگت تین ارب روپے سے زائد رکھی گئی ہے جس سے سڑک کی کشادگی کے لیے زمین کی خریداری اور دیگر اخراجات کی مد میں دو ارب روپے جبکہ ایک ارب روپے تعمیر پر خرچ کرنے کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔
منصوبہ کی تکمیل کے لیے ایل ڈی اے نے حکومت کی منظوری کے بعد ٹینڈروصول کیے گئے جن میں تین کمپنیوں نے حصہ لیا۔ ان کمپنیوں میں حبیب رفیق کنسٹرکشن کمپنی، این ایل سی اور مقبول ایسوسی ایٹس شامل تھیں۔
ایل ڈی اے ترجمان کے مطابق سب سے کم ریٹ مقبول ایسوسی ایٹس کی جانب سے دیا گیا اور ایل ڈی اے کے طے شدہ قانون کے مطابق ٹھیکہ بھی ان کو مل گیا۔ منصوبہ چار ماہ کی مدت میں مکمل کرنے کا وقت دیا گیا ہے۔
بلیک لسٹ ہونے کے باوجود کمپنی کو ٹھیکہ کیسے ملا؟
یہ سوال جب ترجمان ایل ڈی اے سہیل جنجوعہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ منصوبہ پر صرف تعمیری لاگت ایک ارب نو کروڑ رکھی گئی تھی۔
مقبول ایسوسی ایٹس نے97 کروڑ ایک لاکھ 31 ہزار 267 کی بڈ دی، این ایل سی نے ایک ارب دو کروڑ 49 لاکھ 76 ہزار 140 اور حبیب کنسٹرکشن کمپنی نے 99 کروڑ 69 لاکھ 70 ہزار 984 کی بڈ دی۔
ترجمان ایل ڈی اے کے مطابق سب سے کم بڈ مقبول ایسوسی ایٹس نے دی اور قوائد و ضوابط کے مطابق ٹھیکہ انہیں دینے کے پابند ہیں جبکہ بڈ کی ٹیکنیکل اور فنانشل ایویلیوایشن کے بعد آمادگی کا لیٹر دیا جائے گا۔
ان سے پوچھا گیا کہ سابق حکومت کی جانب سے بلیک لسٹ قرار دی گئی کمپنی کو ٹھیکہ قانونی طور پر کیسے دیا جاسکتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ مقبول ایسوسی ایٹس نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر کے خود کو بلیک لسٹ سے نکلوا کر ایل ڈی اے میں دستاویزات پیش کیں جس کے بعد انہیں ٹینڈر میں شرکت کی اجازت دی گئی تھی۔
ایل ڈی اے ذرائع کے مطابق مقبول کالسن کمپنی نے ایل ڈی اے میں مقبول ایسوسی ایٹ کے نام سے ٹینڈر بھرا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا اس منصوبہ کا حال بھی بی آر ٹی جیسا ہوگا؟
وائس چیئرمین لاہور ڈولپمنٹ اتھارٹی ایس ایم عمران نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مقبول ایسوسی ایٹس کو فردوس مارکیٹ انڈر پاس بنانے کا ٹھیکہ اس شرط پر دیا گیا ہے کہ وہ مقررہ وقت یعنی چار ماہ میں یہ منصوبہ مکمل کرنے کے پابند ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ایل ڈی اے کی قانونی ڈیمانڈ پوری کرنے کے بعد ہی کوئی کمپنی ٹھیکے کا ٹینڈر بھر سکتی ہے اور جو سب سے کم قیمت میں ٹینڈر حاصل کرے اسی کمپنی کو ٹھیکہ دینے کے پابند ہیں۔
ان سے پوچھا گیا کہ جن سے بی آر ٹی منصوبہ مقررہ وقت میں مکمل نہ ہوا وہ کمپنی یہ کیسے بنائے گی؟
جس کے جواب میں ایس ایم عمران نے کہا کہ پشاور بی آر ٹی منصوبہ ان کی ذمہ داری نہیں تھا کئی مسائل ہوسکتے ہیں جیسے فنڈز کے اجرا میں تاخیر یا ڈیزائن وغیرہ میں تبدیلی لیکن ہم نے جو چار ماہ کا وقت مقرر کیا ہے اس میں اس کمپنی کو یہ تعمیر مکمل کرنا ہوگی ورنہ قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔
اس معاملہ پر انڈپینڈنٹ اردو نے ایل ڈی اے کی رکن گورننگ باڈی ایم پی اے سعدیہ سہیل رانا سے بات کی تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ قوائد کے مطابق اگر مقررہ وقت میں منصوبہ مکمل نہ ہوا تو کمپنی کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔
سعدیہ سہیل رانا نے کہا کہ بی آر ٹی کی طرح اس منصوبہ میں تاخیر کی گنجائش نہیں، کیونکہ یہ مصروف ترین روڑ ہے اور شہریوں کو تعمیراتی کام کے باعث بلاوجہ زحمت قابل قبول نہ ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبہ کے لیے کل تین ارب روپے سے زائد کی رقم مختص کی گئی ہے۔ دو ارب روپے روڈ کو کشادہ کرنے کے لیے زمین کی خریداری اور دیگر اخراجات جبکہ تعمیر پر ایک ارب کے لگ بھگ اخراجات ہوں گے جس کا ٹھیکہ دیا گیا ہے۔
ان کے مطابق ٹھیکے کا آغاز یکم جون تک ہو جائے گا۔
’فردوس مارکیٹ انڈر پاس کا ڈیزائن نیسپاک نے تیار کیا ہے، ڈیزائن کے مطابق سینٹر پوائنٹ سے کیولری اور ڈی ایچ اے کی جانب دو طرفہ فل ہائٹ انڈر پاس تجویز کیا گیا ہے، جبکہ کیولری گراؤنڈ سے سینٹر پوائنٹ کی جانب ساڑھے چھ کنال اراضی ایکوائر کی جائے گی۔‘
سعدیہ سہیل نے کہا کہ یہ دو رویہ انڈر پاس 540 میٹر طویل اور دونوں اطراف دو، دو لینز پر مشتمل ہوگا۔ یہاں سے بارشی پانی کے اخراج کا خصوصی انتظام بھی منصوبہ کا حصہ ہوگا۔
کمپنی کے خلاف تحقیقات
واضح رہے کہ خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف حکومت نے 2017 میں بی آر ٹی منصوبہ کا آغاز کیا تھا جسے مکمل کرنے کی مدت ایک سال تھی لیکن تین سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبہ مکمل نہیں ہوسکا ہے جبکہ لاگت میں بھی اربوں روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔
اس معاملہ پر جب پشاور ہائیکورٹ نے 2019 میں اس منصوبہ کی تحقیقات کا حکم دیا تھا تو خیبرپختونخوا حکومت کی درخواست پر چند ماہ بعد سپریم کورٹ نے تحقیقات روکنے کا حکم دیا تھا۔
پشاور ہائیکورٹ کے حکم پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی(ایف آئی اے) نے بی آر ٹی منصوبہ کی تحقیقات کا آغاز کیا تو پنجاب حکومت کو مراسلہ بھیجا جس میں بی آر ٹی منصوبہ پر کام کرنے والی مقبول کولسن کنسٹرکشن کمپنی کو بلیک لسٹ کرنے سے متعلق ریکارڈ طلب کیا گیا جس کے جواب میں پنجاب کے متعلقہ اداروں ٹرانسپورٹ، پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی اور ایل ڈی اے نے ایف آئی اے کو تمام ریکارڈ بھجوا دیا تھا۔
جس میں بتایا گیا کہ مقبول کولسن کمپنی کو اورنج لائن میٹروٹرین منصوبے کے ایک پیکیج کا ٹھیکہ دیا گیا تھا لیکن ناقص کارکردگی پر پنجاب حکومت نے کمپنی کو بلیک لسٹ کر دیا تھا۔