پتھر کے زمانے کے افریقی قبیلوں کے طویل عرصے سے چھپے راز ظاہر ہونے لگے ہیں، جس کی وجہ قبل از تاریخ آتش فشاں کا پھٹنا ہے۔
قدموں کے سینکڑوں قدیم نشان جو آتش فشانی گارے میں محفوظ تھے، 13 ہزار سال قبل روزمرہ کی زندگی میں جھانکنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ تنزانیہ میں موجود اس مقام پر یہ جاری مشاہدہ قبل از تاریخ انسان کے رویوں اور سماجی حالات کی اب تک کی جانے والی سب سے اہم تحقیق ہے۔
امریکی سائنس دانوں کے ایک نشان کے تفصیلی تجزیے میں سامنے آیا کہ صنفی امتیاز پر ذمہ داریوں کی تقسیم، جس سے انسانی تاریخ کا زیادہ تر حصہ متاثر ہے، شاید پتھر کے زمانے میں اپنی بنیادیں رکھتی تھی۔
یہ قدموں کے نشانات 22 سے 32 افراد کے ہیں جو آتش فشاں سے نکلنے والی مٹی پر چلتے اور کبھی دوڑتے تھے۔ یہ مقام سالٹ واٹر لیک کے کنارے پر واقع ہے جو اب شمالی تنزانیہ کا حصہ ہے۔
لندن میں سائنسی جرنل نیچر سائنٹیفک رپورٹس میں شائع ہونے والے تجزیے میں سامنے آیا کہ ایک انفرادی شخص کے علاوہ یہ انسانوں کے تین گروہ تھے، جو آتش فشاں والے اس علاقے میں نقل و حرکت کر رہے تھے۔ یہ شاید 11 ہزار قبل از مسیح میں بہار کا موسم تھا۔
یہ دور قدیم میں عام انسانوں کے درمیان اور ماحول کے ساتھ ان کے رابطے کی ایک منفرد تصویر دکھاتا ہے۔ گروپ ایک میں تین افراد تھے، جن میں دو کے قدموں کے نشانات خواتین اور ایک مرد کے تھے۔ یہ ممکنہ طور پر ایک متحرک یا ماضی قریب میں متحرک آتش فشاں کے پاس سے تیزی سے گزرے تھے۔
جب وہ برق رفتاری سے یہاں سے گزر رہے تھے تو ان کے پاؤں آتش فشاں کے کیچڑ میں پھسلتے رہے۔ گروپ دو دو لوگوں پر مشتمل تھا (ایک مرد اور ایک عورت)۔ وہ بھی تیز قدموں سے چلتے ہوئے آتش فشاں پہاڑ کے پاس سے گزر رہے تھے۔ (ابھی تک فعال اولڈ ویونیو لنگائی کا آتش فشاں، جس کا مسائی زبان سے انگریزی میں ترجمہ کیا گیا ہے یعنیٰ خدا کا پہاڑ)۔
گروپ تین جو بڑی حد تک سب سے زیادہ دلچسپ گروپ ہے، 14 خواتین، دو مردوں اور شاید ایک لڑکے پر مشتمل تھا۔ یہ گروپ پہلے اور دوسرے گروپ کے چند گھنٹے یا ایک دو دن کے فاصلے سے پیچھے ایک اکائی کی شکل میں آگے بڑھ رہا تھا لیکن اس بار آتش فشاں پہاڑ کی جانب جانے کی اس کی رفتاری بہت کم تھی۔
حجم اور ساخت کے اعتبار سے گروپ تین جدید دور کے شکار پر گزر بسر کرنے والے بعض معاشروں میں درختوں سے حاصل ہونے والی خوراک کی تلاش کرنے والے گروہوں سے ملتا جلتا ہے۔
زندہ رہنے کے لیے شکار پر گزارہ کرنے والوں کے نقش قدم پر چلنے میں ممکن دکھائی دیتا ہے کہ ایسی صورت میں کہ جب کہ خواتین خوراک (شاید کھانے کے قابل جڑیں) تلاش کر رہی تھیں، دو مردوں کا کام اُن کی حفاظت کرنا اور انہیں جنگلی جانوروں (شیروں اور لگڑبھگوں) اور تندخُو جنگلی بھینسوں سے بچانا تھا۔
تاریخ سے قبل کے دور میں ایسا پہلی بار ہوا کہ آثارقدیمہ سے ملنے والی شہادت نے محنت کی جنس کی بنیاد پر تقسیم (خواتین کا زیادہ تر کام درختوں سے حاصل ہونے والی خوراک جمع کرنا تھا) کی جانب اشارہ کیا۔
امریکی ریاست شمالی کیرولینا میں ایپالیشیئن سٹیٹ یونیورسٹی میں قدموں کے نشانات کے منصوبے کی سائنٹفک ڈائریکٹر پروفیسر سنتھیا ایم لائیوکس۔پیئرس نے کہا: 'قدموں کے قدیم نشانات کی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ جنس کی بنیاد پر محنت کی وہ تقسیم جو ہم دنیا کے کئی حصوں میں آج بھی دیکھتے ہیں شاید اس کا تعلق قبل از تاریخ کے کسی دور سے ہے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ علاقہ جس میں یہ پارٹی گزر رہی تھی، ہو سکتا ہے کہ اُس میں کھانے والے درختوں، تازہ پانی حتیٰ کہ (اب تک باقی رہنے والےکئی چشموں اور تازہ پانی کے جوہڑوں کی بدولت) مچھلیوں کے وسیع وسائل ہوں۔
مزید برآں، جنوب میں چند میٹرکے فاصلے پر آتش فشانی گارہ بہت گہرا اور دھوکہ دینے والا رہا ہوگا، جب کہ شمال میں چند میٹر دور جھیل کا کنارہ غذائی اعتبار سے بےکار ہوگا جس کی ممکنہ وجہ جھیل کا نمکین پانی تھا۔
قدموں کے نشانات کے ثبوت سے پتہ چلتا ہے کہ کم از کم کچھ خواتین نے چھوٹے بچے اٹھا رکھے تھے۔ سائنس دانوں نے ایک واقعے کا سراغ لگایا ہے کہ جس میں ایک بچہ جس کی عمر شاید تین سال تھی، اُسے اُس کے اٹھانے والے نے دوبارہ اٹھانے سے پہلے گارے پر رکھ دیا۔
سادہ سی بات ہے کہ وہ بچہ دوبارہ اٹھائے جانے کے لیے صبر کے ساتھ وہاں کھڑا رہا۔ بچے کے بائیں یا دائیں پیر کا صرف ایک نشان بالغ خاتون کے پیر کے نشانات کے بہت قریب ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔
مشرقی افریقہ کے پتھر کے زمانے کے لوگ کسی دوسری جگہ کے قبل از تاریخ کے لوگوں کی طرح چٹانوں، پناہ گاہیں اور اپنے گھروں کی بنیادوں پر سایہ پسند کرتے تھے۔ اس لیے ممکنہ طور پر اہم بات ہے کہ کھانے کے طور پر استعمال ہونے والے درختوں کی تلاش میں جنوب مغربی ایشیا سے مشرقی افریقہ تک پھیلی عظیم وادی شق (the great rift valley) کی طرف جانے والی بڑی پارٹی خواتین کی تھی۔ اس وادی میں چناٹوں کی پناگاہ ہیں، درختوں کی اوٹ اور بہتا ہوا تازہ پانی دستیاب ہوگا۔
ایک اکیلا فرد جو دراصل (تیز چلنے کی بجائے) دوڑ رہا تھا وہ بہت لمبے قد کی بالغ عورت تھی۔ وہ آتش فشانی گارے کے آر پار تقریباً ساڑھے چھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کر رہی تھی۔
مجموعی طورپر 13 سے 18 بالغ عورتیں، تین سے چار بالغ مرد، اتنی ہی تعداد میں 16 سے 18 سال کے دو نوجوان (جن کے پیروں نے دراصل بہت تھوڑی دیر کے زمین کو چھوا تھا) اور چار تک دوسرے بچے (10 سے 15 سال کے) وہاں تھے۔ اس سے زیادہ صحیح تعداد کا تعین کرنا ناممکن ہے کیونکہ قدموں کے تمام نشانات کے'مالکوں' کا تعین کرنے میں مشکلات حائل ہیں۔
ان 22 سے 32 افراد نے مجموعی طور پر قدموں کے 408 نشانات چھوڑے۔ قبل از تاریخ قدموں کے نشانات بنانے والے افراد کے تناظر میں دیکھا جائے تو ان نشانات کی تعداد دنیا میں دوسری بڑی تعداد ہے(قدموں کی سب سے زیادہ تعداد والا مقام آسٹریلیا میں ہے)۔
مزید برآن عورتوں کے قدموں کے 316 نشان ماقبل تاریخی عورتوں کے قدموں کے نشانات کی وہ سب سے بڑی تعداد ہے جو کبھی دنیا میں کہیں بھی پائے گئے۔
بالغ خواتین، بالغ مردوں، بالغ افراد اور بچوں کے قدموں کے 408 نشانات ایک کے بعد ایک ہونے والے واقعات میں اتفاقی طور پر محفوظ رہ گئے تھے۔ پہلے آتش فشاں پھٹنے کے دو مختلف واقعات ہوئے جنہوں نے آتش فشاں پہاڑکے دو مختلف حصوں سے نکلنے والے لاوے کی راکھ بکھیر دی۔
چند دن یا چند ماہ بعد بڑی طوفانی بارش ہوئی اور آتش فشاں پہاڑکی ڈھلوانوں پر بہہ کرتیزی سے نیچے آنے والا پانی راکھ کے دو ڈھیروں میں سے ایک میں شامل ہو گیا جس سے آتش فشانی گارے کا دریا بن گیا جو بہہ کر کم ازکم کئی میل تک گیا۔ اس طرح ایک وسیع تر علاقے میں آتش فشانی گارے کی 30 سینٹی میٹر موٹی تہہ کا سیلاب آ گیا۔
اس واقعے کے کچھ عرصے بعد مقامی لوگوں کے تین گروپوں (اورایک اکیلا دوڑنے والے) نے اس نرم گارے پر سفر کیا اور بعد میں آنے والے وقت کے لیے قدموں کے نشان چھوڑ دیے۔
لیکن تب، کئی ہفتے بعد ایسا لگتا ہے کہ دوسرا (زیادہ ڈرامائی) طوفان آیا جس کا نتیجہ لاوے کے بالکل ماخذ کی راکھ کی صورت میں نکلا (لیکن اُسی آتش فشاں پہاڑ سے)۔ یہ راکھ بارش کے پانی میں شامل ہو گئی اور بالآخر اُسی دریا کے ساتھ ساتھ بہتی ہوئی دوبارہ کنارے سے باہر نکل گئی لیکن اس بار قدموں کے تمام نشانات کو (جو اس وقت تک خشک ہو کر سخت ہو چکے تھے) 13 ہزار برس کے لیے آتش فشانی گارے کی 40 سے 75 سینٹی میٹر موٹی تہہ تلے دفن کر دیا۔
یہ صرف خوش قسمتی پر مبنی حقیقت ہے کہ معدنی اور ساخت کے طور پر مختلف دو اقسام کی راکھ کی بدولت (قدموں کے نشانات بننے کے عمل سے پہلے اور بعد میں) ماہرین آثار قدیمہ اور ماہر ارضیات قدموں کے نشانات کی کھدائی، نشاندہی، انہیں منظر عام پر لانے اور ان کے مطالعے کے قابل ہو گئے۔
دریا کے راستے اور جھیل کے درمیان کے علاقے میں شاید جانور کثرت سے ہوں گے (جیسا کہ اب قدموں کے نشانات سے انکشاف ہوا ہے کہ بظاہر محنت جنس کی بنیاد پر تقسیم تھی، مرد شکار کرتے ہوں گے)۔
سائنس دانوں نے پورے آتش فشانی میدان میں نہ صرف انسانی قدموں کے نشانات دریافت کیے ہیں بلکہ ہرن کے کھروں کے (19 نشانات)، زیبرے کے (24)، بھینس کے (30) اور گیدڑ اور بن مانس کے پیروں کا ایک ایک نشان بھی دریافت کیا ہے۔
یہ جگہ تنزانیہ کے قصبے ارُوشا کے قریب انگارسیرو کے مقام پر واقع ہے۔ ابتدا میں اسے مسائی قبیلے سے تعلق رکھنے والےکونگو سکائی نامی شخص نے دریافت کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے 2006 میں اس کے بارے میں اپنے دو دوستوں کو بتایا جنہوں نے جواب میں قدرتی وسائل کے تحفظ کے حامی ایک امریکی شہری جِم بریٹ کو بتایا۔ بریٹ نے یہ معلومات امریکی ماہر ارضیات سنتھیا ایم لائیوکس پیئرس تک پہنچا دیں۔
امریکی نیشنل جیوگرافک سوسائٹی اور سان فرانسسکو میں علم البشریات سے متعلق ایک تنظیم 'دا لیکے' نے اس جگہ پر امریکہ کی 10 یونیورسٹیوں کے سائنس دانوں کی جانب سے طویل مدتی تحقیق کے لیے فنڈ فراہم کیا۔
اس جگہ کو باڑ لگا کر محفوظ بنا دیا گیا ہے اور سرکاری حکام اور مقامی مسائی قبیلے کے لوگ یہاں مسلسل پہرہ دیتے ہیں، جنہیں اپنی دریافت پر بے انتہا فخر ہے۔
اب کھدائی، ریکارڈ مرتب کرنے، قدامت کے تعین کے ٹیسٹوں اور تحقیق کے 12 سال بعد 13 ہزار سال پہلے کے عام افریقیوں کی زندگیوں کی ایک دن (یا دو) کی مکمل کہانی بیان کی جا سکتی ہے۔
© The Independent