کل امی سے سکائپ پر بات ہو رہی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ ایک پرانی سہیلی ملنے آئی تھیں اور میرا پوچھنے پر جب امی نے بتایا کہ وہ پی ایچ ڈی کرنے باہر گئی ہے تو سہیلی نے دعا دی کہ ’خدا اس کے نصیب کھول دے۔‘
ویسے تو دعائیں لیتے ہوئے یقیناً سب کو خوشی ہی ہوتی ہے مگر میں نے انجان بن کر امی سے پوچھا، ’نصیب کھول دے، مطلب؟ ابھی تک کیا بند ہے؟ زندگی میں جو کرنا چاہتی تھی، کر رہی ہوں اور کیا چاہیے؟‘ امی بھی مسکرانے لگیں۔
پاکستان میں نصیب کھول دے، نصیب اچھے کرے، یہ ساری دعائیں براہ راست شادی سے جڑی ہیں اوراس کا مطلب یہ ہے کہ اب آپ کی بھی شادی ہو جانی چاہیے۔ یہاں بھی صنفی امتیاز جلوہ گر ہے کہ یہ دعا صرف لڑکیوں کو ہی دی جاتی ہے، یا تو لڑکوں کے نصیب نہیں ہوتے یا پھر انہیں اپنے نصیب اچھا کرنے کے لیے دعاؤں کی ضرورت نہیں ہوتی۔
یہاں لفظ نصیب سے مراد ہمارے معاشرتی عقل و شعور کے مطابق محض ’شادی خانہ آبادی‘ ہی ہے۔ اس میں زندگی کے دوسرے شعبوں کا دور دور تک کوئی عمل دخل نہیں۔ ہم نے نہیں دیکھا کسی نے آج تک یہ دعا دی ہو کہ ’خدا لڑکی کو خود مختار بنائے، تعلیم یافتہ کرے، اسے پی ایچ ڈی کے لیے سکالرشپ ملے، یہ بہترین تحقیق کرے، اس کا اچھا کیریئر بنے، خاندان میں اس کی رائے کو اہمیت دی جائے، اسے جائیداد میں حصہ ملے یا لینے کا سلیقہ ہو۔‘
بچپن میں ٹیچر جب ہمیں ’میری زندگی کا مقصد‘ پر مضمون لکھنے کے لیے دیتی تھیں تو نجانے کون کون سے خواب اس پر بنتے تھے۔ میرا خیال ہے بحیثیت پاکستانی بالخصوص لڑکیوں کو صرف ایک ہی مقصد تحریر کرنا چاہیے، شادی۔ کیونکہ بڑے ہونے کے ساتھ اور کوئی مقصد آپ کا رہ نہیں جاتا۔
خاندان اور معاشرہ آپ کے سسرال جانے کی باقاعدہ تربیت کرتا ہے۔ بولنا کیسے ہے، چلنا کیسے ہے، لباس کیسا ہو، کتنی زور سے ہنس سکتے ہیں، کیا کیا نہیں کرنا (خاصی طویل فہرست ہے)۔ آنے والی زندگی میں کون لوگ متھے لگیں گے اور انھیں کیا کیا پسند ہو گا، ویسا بننے کی ہر ممکن کوشش پیشگی کی جاتی ہے۔ اس سارے عمل میں ان کی اصل شخصیت کہیں دفن کر دی جاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دیکھیں اگر آپ صنف نازک ہیں، تعلق وطن عزیز سے ہے، تو آپ کی زندگی کے تین اہم مسائل ہیں، گوری رنگت، شادی اور بیٹا (لان کی سیل کا نمبر ان تینوں کے بعد آتا ہے)۔ اس فہرست کے بعد راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ پڑھنے پڑھانے کی کوئی خاص ضرورت نہیں کیونکہ آپ مریخ کا تحقیقی دورہ بھی کر لیں، واپسی پر پہلا سوال ہو گا، ’کہیں بات طے ہوئی؟‘
کیونکہ ہمارے معاشرے میں تمام تر قابلیت اور اہلیت شادی سے جڑی ہے۔ پھر آپ کتنے ہی تمغے، آسکراور نوبل پرائز لے لیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ کی شادی کی ممکن ہے آپ کو فکر نہ ہو، اماں ابا کو نہ ہو، لیکن محلے والے، رشتے دار اور دوست احباب بھی آخر کسی غرض سے تخلیق کیے گئے ہیں، یہ کام وہ کر لیں گے۔
ایک عمر مخصوص کی گئی ہے، اگر اس میں رہتے ہوئے شادی کر لیں تب تو ٹھیک، اگر اس’لکشمن ریکھا‘ سے آگے بڑھ گئے تو پھر آپ کی خیر نہیں۔ اب ہر گزرتے سال کے ساتھ آپ کی پریشانی میں اضافہ ہونا اشد ضروری ہے۔ جس قدر ہو سکے وظیفے پڑھیں، منتیں مانیں، نذرونیاز کریں۔
ہر گزرتے سال کے ساتھ لڑکی کا فرض ہے کہ وہ ایسا برتاؤ کرے جیسے اس کے ساتھ کوئی بہت بڑا سانحہ ہو گیا ہے۔ جب کوئی شادی کے بارے میں بات کرے، وہ لازمی دکھی ہو جائے اور دھرتی پر بوجھ والا نقشہ کھینچے۔
یہاں اپنی عمر چھپانے کا ایک اچھا ٹوٹکا یہ ہے کہ تعلیم کا سلسلہ روک دیں کیونکہ زیادہ تعلیم مطلب زیادہ عمر۔ میٹرک، انٹر، کم عمر۔ میری کئی کزنز ہیں جن کی تعلیم صرف اس لیے روک دی گئی کہ زیادہ پڑھی لکھی لڑکیوں کے لیے اچھے رشتے نہیں آتے (ویسے جو رشتہ آپ کو جاہل رہنے پر آمادہ کرے، وہ اچھا کیسے ہو سکتا ہے؟)
یاد آیا ایک دفعہ پڑوس کی آنٹی نے خود ساختہ رائے دی تھی کہ بلا وجہ ہی اتنا پڑھ لیا، اب کسی کو بتانا مت، بس گریجویشن ہی کہنا۔ وہ الگ بات میں نے ان کی رائے پر کان نہیں دھرے۔
اس دوڑ میں تعلیم یافتہ لڑکیاں بھی پیچھے نہیں ہیں۔ ایم فل کرنے سے پہلے ایک دوست سے کہا تھا کہ تم بھی داخلہ لے لو تو اس نے کہا، ’نہیں اگرمیں ایم فل کر لوں گی تو پھر اس سے زیادہ تعلیم والا لڑکا ڈھونڈنا مشکل ہو جائے گا۔ بھئی اس لیے میں تو آگے پڑھنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ ماسٹر تک ٹھیک ہے، ماسٹر کیے ہوئے لڑکے تو پھر مل جاتے ہیں!‘
گویا ڈگریوں کی ریس ہے اگر لڑکی نے ایک ڈگری کر رکھی ہے تو لڑکے کی ڈگری اس سے ایک قدم آگے ہی ہونی چاہیے۔ زندگی کو ایک مقابلہ سا بنا دیا گیا ہے۔ خاندان میں ایک لڑکی کی منگنی کریں، باقی سب ماؤں کو فکر لاحق ہو جاتی ہے اور اس چکر میں انہیں کسی بھی کھونٹے سے ٹانگ دیا جاتا ہے اور پھر نبھانے کی ذمے داری لڑکی کی۔
ایسی کئی مثالیں ہیں۔ پچھلے سال برادری میں ایک لڑکی کی شادی 16 سال کی عمر میں کر دی گئی۔ شادی اتنی شاہانہ تھی کہ ہر ایک اس کی قسمت پر رشک کر رہا تھا۔ چند دن بعد پتہ چلا کہ لڑکا پہلے سے شادی شدہ ہے اور اس نے اپنے اور لڑکی کے ماں باپ کو بتا دیا تھا مگر چونکہ لڑکی آخر بیاہنی تھی تو وہیں شادی کر دی۔ اب حال یہ ہے کہ لڑکی واپس اپنے ماں باپ کے گھر آ چکی ہے۔
خالہ نے اپنی بیٹیوں کو کوئی ہنر اور تعلیم نہیں دی۔ ان کے بھائی کہتے تھے، ان کی دو روٹیاں ہم پر بھاری نہیں۔ آج ان میں سے ایک کے شوہر مسلسل گھر پر بیٹھے رہتے ہیں، کام کا ان سے دور دورتک کا واسطہ نہیں۔ اس لڑکی کی زندگی جہنم بنا دی گئی ہے اورانھیں آج بھی ہر چھوٹی موٹی ضرورت کے لیے اپنے بھائی اور بھابھی کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔
شادی یقیناً زندگی کا اہم معاملہ ہے مگر زندگی کا واحد کام نہیں۔ اس کے لیے خود کو ہلکان کرنے کی ضرورت نہیں۔ اپنی صلاحیتوں کو استعمال میں لائیں، تعلیم حاصل کریں، مالی خودمختاری یقینی بنائیں، خواہشوں کی تکمیل کریں، شادی سے پہلے کا وقت اس ایک مقصد کے حصول میں صرف نہ کر دیں۔
شادی اس لیے نہ کریں کہ چونکہ عمر نکل رہی ہے اس لیے کہیں نہ کہیں کرنی ہے، کسی شخص کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ مذاق نہیں، یہ فیصلہ معاشرتی دباؤ میں نہیں کیا جا سکتا۔ جب لگے کہ آپ خود اس کے لیے تیار ہیں اور ذہنی طور پر اپنے شریک سفر سے مطمئن ہیں تبھی یہ ڈور باندھیں۔
زندگی ایک بار ملتی ہے، اسے مقابلہ بازی میں ضائع نہیں کیا جا سکتا۔ میں اس مقابلے کا حصہ بننے سے انکار کرتی ہوں۔ ارے ہاں ان آنٹی سے کہنا تھا، راحتیں اور بھی ہیں شادی کی راحت کے سوا۔ یقین مانیں لوگوں کی زندگی میں ترجیحات آپ کی سوچ سے بہت مختلف بھی ہو سکتی ہیں۔