کسی بھی مرد کے لیے یہ خبر حیرت کا باعث ہو سکتی ہے کہ کنواری اور بغیر بچوں کے خواتین انسانوں میں سب سے زیادہ خوش و خرم رہنے والا گروہ ہے۔ میں کافی عرصے سے دیکھ رہی ہوں کو کس طرح میری جاننے والی خواتین شادی کرتی ہیں اور بچوں کو جنم دیتی ہیں۔ مجھے اپنے شادی نہ کرنے کے فیصلے پر شک ہونے لگا تھا۔ میں سوچنے لگی تھی کہ کیا میں شادی کر کے زیادہ خوش ہوتی؟ لیکن اب مجھے لگتا کہ میری شادی کے بارے میں سوچ ہمیشہ سے ٹھیک تھی۔
اب جبکہ میری شادی شدہ سہیلیاں شادی کے بعد بچوں والی زندگی گزار رہی ہیں۔ وہ رشتوں، بچوں، سکول کی ذمہ داریوں اور گھر کے کاموں میں الجھی ہوئی ہیں اور اسی کو ایک کیریئر سمجھ رہی ہیں اور ہم اپنی کمائی ہوئی دولت سے وہ سب کرنے میں مصروف ہیں جس کو کرکے ہمیں تسکین ملتی ہے۔ یقینی طور پر زندگی میں ایسے لمحے ہوتے ہیں جس میں ہم خواہش کرتے ہیں کہ ہم بھی کسی رشتے میں بندھے ہوتے اور ہمارے بھی بچے ہوتے لیکن جب آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ ایسا آپ اپنی مرضی سے نہیں کر سکتے۔ آپ ایسا سوچتے ہیں کہ آپ معاشرے کی توقعات پر پورا نہیں اترتے۔ آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے اور آپ کس طرح یکسوئی سے اس کو حاصل کر سکتے ہیں؟
معاشرہ شاید ہمیں یہ بتائے کہ شادی اور بچے ہماری زندگی کو خوشیوں سے بھردیں گے لیکن کنواری اور بغیر بچوں کی خواتین جانتی ہیں کہ کسی اور سے خوشی کی امید رکھنے کا اختتام مایوسی پر ہو سکتا ہے۔
کسی بھی رشتے میں ہونا کسی اور انسان کے لیے وقت نکالنے اور اپنی ذات سے زیادہ اس کو توجہ دینے سے مشروط ہے۔ یہ دونوں کے لیے خوشیاں تلاش کرنے، تھوڑی سی خود غرضی، یقین اور ساتھ نبھانے پر منحصر ہوتا ہے، لیکن یہ خواتین کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ گو کہ شادی شدہ مرد کنوارے مردوں کی نسبت زیادہ خوش رہتے ہیں۔
یہ کہنا آسان ہوگا کہ ایسا بچوں کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن کوئی اور وجہ بھی ضرور ہوتی ہوگی۔ گذشتہ ہفتہ کے اختتام پر میں نے اپنے ایک دوست کے ساتھ ایک آرٹیکل کے بارے میں گفتگو کی جو ہم دونوں نے پڑھا تھا جس میں لکھاری نے تھراپی میں جانے کے بارے میں اپنے احساسات کو بیان کیا تھا۔ اس لکھاری نے لکھا تھا کہ اس نے اپنے تھراپسٹ کے پاس جانا فوری طور پر چھوڑ دیا جیسے ہی اس کی اپنی بیوی سے ملاقات ہوئی۔
میرے دوست کے مطابق یہ ایک معمول کی بات تھی۔ آپ کسی تھراپی پر کیوں پیسے لٹانا چاہیں گے جب آپ کے گھر میں کوئی موجود ہے جس سے آپ اس بارے میں بات کر سکتے ہوں۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ایک اور مرد کسی خاتون کو ایک بغیر فیس دیے تھراپسٹ یا معالج کے طور پر دیکھ رہا ہے۔
اپنے شوہر کو ڈاکٹر کی اپائٹمنٹ یاد دلانی ہو یا می ٹو مہم کے بعد اپنے دفتری ماحول کو بھلانا ہو، ایک شادی شدہ تعلق میں موجود خواتین پہلے ہی احساساتی اور جذباتی طور پر اپنے مرد شریک حیات کی نسبت بہت محنت کر رہی ہوتی ہے اور ایسا بچوں کی پیدائش سے بھی پہلے شروع ہو جاتا ہے اور جب بچے پیدا ہو جاتے ہیں تو کھیل ہی ختم ہوجاتا ہے۔
مرد کو بچے کی پیدائش کی چھٹیوں کے باوجود خواتین ہی گھر کے تمام تر کام کی ذمہ دار سمجھی جاتی ہیں۔ گھر کی مختلف ذمہ داریاں ادا کرنی ہوں یا ان کاموں کی تقسیم ہو یا پھر گھریلو ماحول کو مثبت رکھنا ہو، ان سب کی ذمہ داری خواتین لے رہی ہیں اور یہ انہیں تھکا رہا ہے۔
موجودہ نسل کی خواتین کے لیے ایک اچھا شریک حیات اور گھرانہ ہمیشہ سے پیشہ ورانہ میدان میں کامیابی کے ساتھ ایک خواب کا حصہ رہا ہے، لیکن بارہا کی جانے والی تحقیق میں ثابت ہوتا ہے کہ ایسا ممکن نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تقریباً 75 فیصد خواتین کا کہنا ہے کہ ملازمت کے دوران انہیں صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا اور یہ بھی کہ ان کی تنخواہ میں کمی اسی دوران واقع ہوئی جب ان کے ہاں بچوں کی پیدائش ہونا شروع ہوئی۔ جب شادی اور بچوں کی قیمت اس کیریئر کو خدا حافظ کہنا ہو جس کے لیے آپ نے دہائیوں محنت کی تو تنہائی اور پریشانی کا احساس ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں ہوتی۔
اِسے سوشل میڈیا پر متوقع ’ماں کے ایک روایتی کردار‘ کے طور پر دیکھیں تو یہ مزید دباؤ کا باعث بنتا ہے۔ انسٹا گرام پر مشہور شخصیات جن کے بچوں نے کبھی سفید کپڑوں پر قے نہ کی ہو یا سکول انتظامیہ کی جانب سے بچوں کی تعلیمی کارکردگی کو لے کر بار بار بھیجی جانے والی ای میلز ہوں۔ پورا معاشرہ ہی ایک ماں سے ایک مثالی کردار ادا کرنے کی امید رکھتا ہے چاہے اس کے لیے انہیں اپنی خوشی کو قربان کرنا پڑے۔
اس کا ایک حل یہی ہے کہ خواتین شادی اور بچے پیدا کرنے سے انکار کر دیں۔ یہ یقیناً خوشی کا باعث ہوگا اور میں کہوں گی ایسا ہی کرنا چاہیے۔
اس کے متبادل کے طور پر ہم خواتین سے کہہ سکتے ہیں کہ انسانی آبادی کو مکمل ناپید ہونے سے بچانے کے لیے خواتین کو اپنی ازدواجی حیثیت کا تعین خود کرنا ہوگا اور صرف اپنی خوشی کا خیال رکھنا ہوگا۔ میرے خیال میں مناسب چائلڈ کیئر،کام کرنے کے دورانیے میں رعایت ملنا اور ایک ایسا شریک حیات جو اپنے حصے کی حساسیت اور ذمہ داریاں ادا کرنے پر راضی ہو جس کے لیے اسے بار بار کہا نہ جائے، اس سلسلے میں ایک اچھا آغاز ہو سکتا ہے۔ جس کے بعد ہم ان کی اس خواہش کو پورا کر سکتی ہیں۔ تب تک آپ میں سے کوئی اس بات پر اعتراض نہ کرے کہ ہم اپنی خواہشات کو کیوں ترجیح دیتی ہیں اور ایسا کر کے خوشی کیوں محسوس کرتی ہیں؟