'میں نے دو مرتبہ خون کا عطیہ دیا کہ کسی طرح میری بچی کی جان بچ جائے لیکن ڈاکٹروں نے مزید میرا خون لینے سے انکار کر دیا اور یوں میری چاند سی بیٹی اس دنیا سے چلی گئی۔
یہ کہنا تھا فیصل آباد شہر کے نواحی گاؤں کی ایک رہائشی خاتون کا، جن کی 13 سالہ تھیلیسیمیا کی مریض بیٹی خدیجہ بروقت خون نہ ملنے کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
خدیجہ فیصل آباد میں تھیلیسیمیا کے مرکز علی زیب فاؤنڈیشن میں زیر علاج تھیں، جہاں چند روز قبل ایک دوسرا تھیلیسیمیا کا مریض بچہ 10 سالہ مدثر بھی بروقت خون نہ ملنے کے باعث ہلاک ہو گیا۔
علی زیب فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر سید سعد اللہ شاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دونوں بچوں کی ہلاکتیں کرونا وبا کے باعث خون کے عطیات میں کمی کی وجہ سے واقع ہوئیں۔
'جب سے یہ وبا آئی ہے ہم خون اکٹھا کرنے کے لیے کیمپس نہیں لگا سکتے اور اسی لیے اکثر تھیلیسیمیا کے مریض بچوں کو بروقت خون نہیں مل پاتا، اکثر کی حالت بگڑ بھی جاتی ہے۔'
خدیجہ کی طبیعت خراب ہونے پر ان کی والدہ نے اپنی بیٹی کی زندگی بچانے کے لیے دو مرتبہ خون کا عطیہ دیا۔
سعد اللہ نے کہا کہ کسی صحت مند شخص سے تین ماہ میں ایک مرتبہ خون لیا جا سکتا ہے، اسی لیے ہم نے خدیجہ کی والدہ سے تیسری مرتبہ خون نہیں لیا کیونکہ زیادہ عطیہ کرنا ڈونر کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خدیجہ اور مدثر دونوں کو ہر 15 روز کے بعد خون کی ایک تھیلی کی ضرورت رہتی تھی۔
اس وقت مدثر اور خدیجہ جیسے لاکھوں بچے تھیلیسیمیا کا شکار ہیں اور انہیں ہر 15 دن بعد خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم کرونا وبا کے باعث خون اکٹھا کرنے میں مسائل کا سامنا ہے۔
تھیلیسیمیا کے بچوں کے لیے خون اکٹھا کرنے والے نجی بلڈ بنک فاطمید بلڈ فاؤنڈیشن کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت ایک لاکھ بچے اس مرض کا شکار ہیں۔
تھیلیسیمیا فیڈریشن آف پاکستان کے مطابق ملک کی آبادی کا چھ فیصد تھیلیسیمیا میں مبتلا ہے جبکہ ہر سال مزید پانچ ہزار بچوں میں اس بیماری کی تشخیص ہو رہی ہے۔
یوں پاکستان میں تھیلیسیمیا کے شکار افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
تھیلیسیمیا کیا ہے؟
یہ ایک موروثی بیماری ہے، جو جینز کے ذریعے والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔ تھیلیسیمیا ایک خون کی خرابی ہے، جس میں انسانی جسم ناکافی یا غیر معمولی طور پر ناکارہ سرخ خون کے خلیوں میں آکسیجن لے جانے والی پروٹین ہیموگلوبن بناتا ہے۔
اس عارضے کے نتیجے میں خون کے سرخ خلیوں کی بڑی تعداد تباہ ہوتی رہتی ہے اور مریض خون کی کمی کا شکار ہوتا ہے۔ تھیلیسیمیا کا آسان علاج مریض کے لیے متواتر انتقال خون ہے جبکہ دوائیوں یا حرام مغز کی پیوند کاری کے ذریعے بھی اس کا علاج ممکن ہے۔
خون کہاں سے آتا ہے؟
پاکستان میں سینکڑوں کی تعداد میں نجی بلڈ بینکس ہیں، جو عوام سے خون کے عطیات اکٹھے کرتے اور انہیں تھیلیسیمیا کے مریضوں کو مہیا کرتے ہیں۔
یہ بلڈ بینکس تھیلیسیمیا کے مریض بچوں کو خون لگانے کے انتظامات بھی کرتے ہیں۔ نجی بلڈ بینکس عام طور پر تعلیمی اداروں، بڑے اداروں کے دفاتر اور حتیٰ کی مساجد کے باہر بھی بلڈ کیمپس کا اہتمام کرتے ہیں، جہاں عام لوگ خون کا عطیہ دیتے ہیں۔
فاطمید فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ رمضان کے دوران خون کے عطیات میں مزید کمی واقع ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تعلیمی اداروں کا بند ہونا بھی خون کے عطیات میں کمی کا باعث بن رہے ہیں۔ 'ہمیں سکول، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے بہت زیادہ عطیات حاصل ہوتے تھے۔'
اس وقت خون کے عطیات میں کمی کا باعث بننے والی تینوں وجوہات موجود ہیں، یعنیٰ کرونا وبا کے باعث لوگ گھروں سے باہر نکلنے سے گریز کر رہے ہیں، تعلیمی ادارے بند ہیں اور رمضان کا مہینہ بھی چل رہا ہے۔
تھیلیسیمیا کی روک تھام کیسے؟
تھیلیسیمیا کا علاج مشکل اور مہنگا ہے کیونکہ مریض کا جسم خون نہیں بنا سکتا اس لیے انہیں ساری زندگی خون کی ضرورت رہتی ہے۔
ماہرین کے مطابق ضروری ہے کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی دونوں کے ایک مخصوص ٹیس کے ذریعے تسلی کر لی جائے کہ ان میں مائنر تھیلیسیمیا کے جینز موجود تو نہیں۔
ڈاکٹرعبدالعزیز نے بتایا کہ اگر ماں باپ دونوں میں مائنر تھیلیسیمیا کے جینز موجود ہوں تو ان کے ہونے والے بچے میں تھیلیسیمیا کی بیماری کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماہرین پاکستان میں قانون سازی کی تجویز دیتے ہیں جس کے ذریعے شادی سے قبل ہر شخص کا مخصوص ٹیسٹ کیا جائے تاکہ تھیلیسیمیا مائنر جینز رکھنے والے افراد کی آپس میں شادی نہ ہو سکے۔
انہوں نے توقع ظاہر کی کہ اس طرح تھیلیسیمیا کے نئے مریضوں میں کمی ہو سکتی ہے۔