پاکستان میں کرونا (کورونا) وائرس اور اس کے نتیجے میں ہونے والے لاک ڈاؤن نے نہ صرف بہت سے خواجہ سراؤں کو بے گھر کر دیا ہے بلکہ ذرائع آمدن نہ ہونے کی وجہ سے وہ لوگوں کی جانب سے دیے گئے عطیات پر گزارہ کرنے پر مجبور ہیں۔
لاک ڈاؤن سے پہلے خواجہ سرا عدنان علی شادی بیاہ کی اور بچوں کی پیدائش کی خوشی میں ہونے والی تقریبات میں فن کا مظاہرہ کر کے اچھا کما لیتے تھے۔ اس طرح اُس مشکل سے نہیں گزرنا پڑتا تھا جس کا ملک میں زیادہ تر خواجہ سرا برادری کو سامنا ہے۔
تاہم شادی ہالز کی بندش اور تقریبات کی منسوخی کے بعد اُن کی آمدن ختم ہو گئی ہے جس کے بعد وہ اُس ایک کمرے کے اپارٹمنٹ کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے جو انہوں نے اسلام آباد کے ایک امیر مضافاتی علاقے میں کرائے پر لے رکھا تھا۔
اب وہ ایک کمرے پر مشتمل رہائش گاہ میں منتقل ہو گئے ہیں جہاں اُن کے ساتھ وہ خواجہ سرا بھی مقیم ہیں جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے کمائی کے ذرائع سے محروم ہو چکے ہیں۔ اپنے مکان کی سیڑھیوں پر ننگے پاؤں بیٹھے علی نے کہا کہ وہ معمول کی زندگی کی طرف واپس جانا چاہتے ہیں تا کہ ڈانس کرسکیں اور اپنی زندگی میں کچھ اچھا کر سکیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان میں بہت سے خواجہ سراؤں کا دعویٰ ہے کہ اُن کا تعلق خواجہ سراؤں کے ان خاندانوں سے ہے جو مغل بادشاہوں کے محلوں میں اچھی زندگی گزارا کرتے تھے۔
ملک میں اِن خواجہ سراؤں کو بچہ پیدا ہونے پر خوشی کی تقریب میں ناچنے گانے کے بلایا جاتا ہے۔ وہ شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی ڈانس کرتے ہیں کیونکہ کسی خاتون کا مردوں کے سامنا ناچنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ایسے موقعے پر حاضرین ان خواجہ سراؤں کو داد کے ساتھ ساتھ پیسے بھی دیتے ہیں اور یہی ان کی آمدن کا بڑا ذریعہ ہے۔
پاکستان دنیا کے اُن پہلے ملکوں میں شامل ہو گیا ہے جہاں خواجہ سراؤں کو 2009 میں تیسری جنس تسلیم کیا گیا۔ 2017 میں خواجہ سراؤں کے شناختی کارڈ جاری کیے گئے جبکہ کئی خواجہ سرا الیکشن میں بھی حصہ لے چکے ہیں۔
معاشرے کا حصہ بننے کی علامات کے باوجود زیادہ تر لوگ اب بھی خواجہ سراؤں کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں اور انہیں تشدد اور ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ خواجہ سرا صرف ناچ گا کر گزر بسر نہیں کر سکتے، وہ بھیک مانگتے ہیں اور سیکس ورکر کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ناچنے کے لطف کو چھوڑ کر پشاور کی 26 سالہ مینہ گل کی زندگی ہمیشہ سے تنہائی کا شکار ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں انہوں نے کہا: 'ہماری پوری زندگی قرنطینہ (آئیسولیشن) میں گزرتی ہے۔ ہم باہر نہیں جا سکتے۔ جب ہم گھروں سے نکلتے ہیں تو ہمیں چہرہ چھپانا پڑتا ہے۔'
مینہ گل وہ اپارٹمنٹ چھوڑ کر ایک پسماندہ علاقے میں منتقل ہو گئی ہیں جہاں وہ اس سے پہلے ساتھی خواجہ سراؤں کے ساتھ رہتی تھیں۔
امداد کے لیے دیے جانے والی رقم
پاکستان میں کرونا وائرس کے کیسوں میں اضافے کے باوجود لاک ڈاؤن میں نرمی تو کر دی گئی ہے لیکن شادی ہال کھولنے کی اجازت نہیں دی گئی، جس کے باعث خواجہ سرا برادری کی آمدن کے ذرائع بند ہیں۔
شیلٹر ہوم، جہاں گذشتہ چند مہینوں سے 12 کے قریب خواجہ سراؤں کی مدد کی جاتی تھی، اب وہاں 70 سے زیادہ خواجہ سرا موجود ہیں، جن کی گزر بسر لوگوں کی جانب سے دیے جانے والے عطیات پر ہے۔ چند کمروں پر مشتمل شیلٹر ہوم جلد ہی بھر گیا ہے، جس کی وجہ سے کچھ خواجہ سرا فرش پر لیٹنے پر مجبور ہیں۔
میک اپ آرٹسٹ ندیم کشش جنہوں نے یہ شیلٹر ہوم قائم کیا، اب انہیں مزید آنے والے خواجہ سراؤں کو واپس بھیجنا پڑتا ہے جبکہ سڑکوں پر موجود خواجہ سرا کھانے پینے کے لیے بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔
اس سوال پر کیا کہ مستقبل میں خواجہ سرا ڈانسر دوبارہ معاشی آزادی حاصل کر لیں گے؟ کشش کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں مسائل بڑھتے نظر آتے ہیں۔ غیریقینی کی فضا نے ذہنی اور جسمانی مسائل پیدا کیے ہیں۔
غیرسرکاری تنظیموں کے سروے کے مطابق پاکستان کی محرومیوں کا شکار خواجہ سرا برادری کے لیے ناچ گانا ایک طریقہ سے جس کے ذریعے بھیک مانگنے یا بطور سیکس ورکر کام کرنے سے بچا جا سکتا ہے۔
وائرس کا شکار ہونے کے خوف نے بہت سے خواجہ سراؤں کو سیکس ورکر کے طور پر کام سے روک دیا ہے جس وہ مزید غربت کا شکار ہو گئے ہیں۔
خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے تیمور کمال کے مطابق خواجہ سراؤں کو پہلے ہی توہین آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب آئیسولیشن نے اُن پر موجود دباؤ اور پریشانی میں اضافہ کر دیا ہے۔
رمضان کا مہینہ اگلے ہفتے ختم ہو رہا ہے۔ معمول کے حالات میں عدنان علی عید کے موقعے پر خوب موج مستی کرتے تھے لیکن اس بار وہ اپنا زیادہ وقت لوگوں سے بھرے شیلٹر ہوم کے لیے عطیات کی تلاش میں گزارتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے وہ اُس وقت کا خواب دیکھتے ہیں جب کرونا وائرس ختم ہو جائے گا اور وہ پھر سے پارٹیوں میں پرفارم کر سکیں گے۔