عید الفطر پر، جسے 'میٹھی عید' بھی کہتے ہیں، خواتین کی تیاریاں مہندی اور چوڑیوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتیں۔
برصغیر کی ثقافت کا حصہ ہونے کی وجہ سے مہندی شادی بیاہ اور عید وغیرہ پر خواتین کے بناؤ سنگھار میں لازمی جزو ہے۔ تاہم، رواں سال کرونا (کورونا) وائرس وبا کی وجہ سے تقریباً دو مہینے لاک ڈاؤن نے جہاں بہت کچھ بدل دیا وہیں عید کی تیاریاں بھی متاثر ہوئی ہیں۔
کرونا وائرس سے بچنے کے لیے سماجی دوری کے باعث اس عید پر خواتین کے لیے ہاتھوں پر مہندی کے ڈیزائن بنوانا مشکل ہو گیا ہے جبکہ کارخانوں میں مہندی کی تیاری بھی گذشتہ سالوں کی نسبت کم ہوئی ہے۔
مہندی تیار کرنے والے ایک کاریگر محمد ذیشان نے بتایا کہ وہ گذشتہ آٹھ سال سے کون مہندی بنا رہے ہیں اور اس سال کرونا وبا کی وجہ سے ان کا کاروبار بہت متاثر ہوا ہے۔ 'پہلے ہم جہاں 15 سے 20 لوگ کون مہندی بناتے تھے، اب سماجی دوری کی وجہ سے صرف ایک، دو لوگ کام کر رہے ہیں۔ ہم سامان بنانے کے علاوہ پیکنگ اور دکان دار تک سامان بھی خود پہنچا کر آتے ہیں۔'
انہوں نے بتایا کہ پچھلے سال انہوں آٹھ سے 10 ہزار ڈبے تیار کر کے بیچے لیکن اس بار صرف چار ہزار تک بیچے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ملتان کے شیخ ساجد سہیل نے بتایا کہ تقریباً 20 سال پہلے وہ کراچی میں اپنی کزن کی شادی پر گئے تھے، جہاں کون مہندی سے ہاتھوں پر بنے خوبصورت ڈیزائن دیکھنے کے بعد وہ وہاں سے کون مہندی اس وقت ملتان لائے جب یہاں کوئی جانتا بھی نہیں تھا۔ 'شروع میں دکان دار پوچھتے تھے کہ اس کو لگانا کیسے ہے؟'
انہوں نے مزید بتایا کہ کچھ عرصہ وہ کراچی سے کون مہندی کے ڈبے لے کر آتے رہے لیکن پھر انہوں نے کراچی سے کون مہندی بنانے کا ہنر سیکھا اور ملتان میں کون مہندی بنانے کا پہلا کارخانہ لگایا۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ کرونا وبا کی وجہ سے نہ صرف کون مہندی بلکہ تمام کاروبار شدید متاثر ہوئے ہیں۔
کون مہندی لگانے والے محمد فیاض نے بتایا کہ کہ وہ گذشتہ آٹھ، دس سال سے مہندی لگا رہے ہیں اور ان دنوں ان کا کام شروع ہو جاتا تھا لیکن اس مرتبہ پہلے والی بات نہیں۔ 'ماضی میں ہماری بکنگ پہلے سے ہو جاتی تھی لیکن اس بار صرف ایک، دو خواتین نے آنے کا کہا ہے۔ اب دیکھیں وہ آتی بھی ہیں یا نہیں۔'