سڑک پر رش لگا ہو، راہ گیر حلقہ بنائے کسی آئے روز کے جھگڑے کا تماشا دیکھ رہے ہوں تو دماغ کے کسی کونے کھدرے میں بھی یہ نہیں آئے گا کہ دو عورتیں ایک دوسرے کے بال نوچ رہی ہیں یا پھر ایک مرد اور عورت باہم دست و گریباں ہیں۔ کیونکہ ایسا ہوتا نہیں۔
پاکستان کیا دنیا بھر میں خواتین اپنی فطری نرم مزاجی کی وجہ سے ایسے فتنوں سے عموماً دور رہتی ہیں۔
انٹ سنٹ کی باتوں پر نہ جائیں۔ دنیا بھر میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کی جیلیں کتنی کم ہیں موازنہ کر لیجیے خود ہی جواب مل جائے گا۔ گھریلو تشدد، قتل اغوا، چوری ڈکیتی اور ریپ جیسے مقدمات میں کتنی خواتین مجرم ہوتی ہیں اور مردوں کی کیا تعداد ہوتی ہے۔ ویسے تو موازنہ بنتا نہیں مگر آپ کی تسلی کے لیے بتا رہی ہوں کہ جرائم میں خواتین کا حصہ مردوں کے مقابلے میں کم ہی ہوتا ہے۔
چونکہ عمومی باتوں کے وہ زمانے کب کے اڑن چھو ہوگئے، اس لیے اب روز کچھ نیا ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ زیادہ نہیں بس چند سال پہلے ہی چلے چلتے ہیں گلوکار علی گل پیر نے گانا گایا ’وڈیرے کا بیٹا۔‘ گانا کیا تھا کچھ بےشرموں کو شرم دلانے کی ایک خوش فہمی تھی۔ اب یہ عالم ہے کہ اگر علی گل پیر کرنل کی بیگم کی شان میں قصیدہ لکھیں گے تو چار دن میں کوئی ٹھیکے دار کی بیٹی نیا سکور ریکارڈ بنا لے گی۔
لاہور میں اداکارہ عظمیٰ خان اور ان کی بہن پر ہونے والے تشدد کی جو ویڈیوز سامنے آئی ہیں ان میں دیکھنے والوں کو کسی ریئل اسٹیٹ ٹائکون کی طاقت نظر آئی، محافظوں کی بندوقیں نظر آئیں، توڑ پھوڑ مار پیٹ نظر آئی۔ مجھے اس وڈیو میں وہ مدہوش خواتین نظر آئیں جنہوں نے طاقت کے نشے کی اوور ڈوز لے رکھی ہے۔ ان کا نشہ ٹوٹا تو شاید یہ خود کو بھی پہچان نہ پائیں۔ وجہ جو بھی ہو ردعمل کیا یہی رہ گیا تھا۔
طاقت کی یہی شان ہے کہ اس کا دل جس پر آجائے اسے اندھا کر کے ہی چھوڑتی ہے۔ طاقت کا نشہ وڈیرے کے بیٹے صدیوں زمانوں سے پی رہے ہیں انہیں اس نشے کے آداب کا پتا ہے۔ یہ بےچاریاں طاقت کا یہ نشہ بھی ٹھیک طرح سے ہینڈل نہیں کر پائیں۔
جج کی بیوی یاد ہے؟ چلیں بھول گئے کوئی بات نہیں میں یاد دہانی کرا دیتی ہوں۔ یہ سابق ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی کی بیگم ماہین ظفر تھیں جنہوں نے طیبہ نامی 10 سالہ گھریلو ملازمہ بچی کو مار مار کر ادھ موا کر رکھا تھا۔ ماہین بی بی اپنے اسلام آباد کے بنگلے میں طیبہ سے کام بھی کرواتی تھیں اور بات بےبات تشدد بھی کرتی تھیں۔ یہ تشدد کوئی معمولی نہیں بلکہ اس حد تک وحشیانہ ہوتا تھا کہ بچی کا جسم داغا جاتا تھا، آنکھ تک پھوڑ رکھی تھی۔
کرنل کی بیوی تو اپنے چھپے ہوئے فن کا لوہا منوانے ابھی حال ہی میں منظر عام پر آئیں لیکن ان کے سامنے آتے ہی ان جیسی آگ اگلتی خواتین کی ویڈیوز کی بھرمار ہونے لگ گئی۔ سوشل میڈیا پر معمولی سی تلاش سے آپ کو ایسی وحشت زدہ خواتین کی کئی ویڈیوز مل جائیں گی جو کبھی دکاندار سے، کبھی ٹریفک پولیس سے اور کبھی کسی دوسری خاتون سے بھڑتی نظر آئیں گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک کیس کراچی میں ثناء نامی خاتون کا ہے جو اپنی بڑی سی سفید گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی ٹریفک پولیس اہلکاروں کو گالیا ں دیتی اور ’اوے بڈھے اوے بڈھے‘ کہتی نظر آئیں گی۔ ایسی ہی ایک سرکاری نمبر والی گاڑی میں سوار خاتون ڈرائیور کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی جو پارکنگ میں دوسری ڈرائیور خاتون پر ٹوٹ پڑیں۔
میرا تو مشورہ ہے کہ سرکار اپنی خیر منائے اور ان بپھری ہوئی خواتین کی نئی لاٹ سے نمٹنے کے لیے فوری بلکہ ایمرجنسی اقدامات اٹھائے۔ محترمہ بےنظیر بھٹو نے 1994 میں پاکستان کے پہلے ویمن پولیس سٹیشن کا افتتاح کیا تھا۔ اس کے بعد آنے والی سرکاروں کو لگا کہ شاید خواتین نے جرائم سے توبہ کر لی ہے۔
خان صاحب کی حکومت کے پاس موقع اچھا ہے کہ کرنل کی بیگم ہو یا ٹھیکے دار کی بیٹی، نمٹنے کے لیے فوری ویمن فورس بنا دی جائے۔ ٹائیگر فورس بنانے کا تجربہ تو پہلے ہی کیا جاچکا ہے۔ ایک ٹائیگرس فورس بنا کر بھی دیکھ لیں، کیا پتا یہ فورس کسی کام کی نکل آئے۔
یہ ویمن فورس وڈیرے کی بیٹی سے نمٹے یا ٹھیکے دار کی بیٹی سے، ملازم بچیوں کی مالکن باجی کو آڑھے ہاتھوں لے اور ٹریفک والے بھائیوں سے گالم گلوچ کرتی میڈموں سے تفتیش کرے۔ یہ ویمن فورس شاپنگ مالز میں ایک دوسرے کے بال نوچتی کھسوٹتی برگر آنٹیوں سے نمٹے۔
ان تمام معاملات میں گر جو کوئی بات باعث تشویش ہے تو وہ ہے ان خواتین کا ماں ہونا۔ بدمعاش عورتیں جو طاقت کے نشے اور نفرت کی آگ میں جل رہی ہیں تو شوق سے جلیں لیکن ایسی خواتین کی کوکھ میں پلنے والے بچے کیا تربیت لے رہے ہوں گے اندازہ آپ خود ہی لگا لیں۔
مرد کا جرم سارے معاشرے کے مروجہ سیٹ اپ کو بگاڑ کر رکھ دیتا ہے، عورت کا جرم پوری نسل کو تہس نہس کر دے گا۔ ماں بہن کی گالی دیتے مرد لائق نفرت ہیں مگر عورت بھی ماں بہن کی گالیاں دینے لگی تو کسی کا کچھ نہیں جائے گا اس کا اپنا مقدمہ کمزور ہوگا۔