عورتوں اور مردوں کو برابر نہ سمجھنے والوں کو ایک خیال یہ بھی آ سکتا ہے کہ زیادہ محتاط ہونے کی وجہ سے شاید عورتیں مردوں کی نسبت زندگی میں کم خطرات مول لیتی ہوں، لیکن نئی تحقیق کے مطابق یہ خیال بالکل غلط ہے۔
اس تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ موقع پڑنے پر خطرے کا سامنا کرنے اور حوصلہ مند رہنے میں صنفی تفریق کا ہرگز کوئی مقامم نہیں۔ بلکہ ایک تجربے کے دوران یہ بھی دیکھا گیا کہ وقت آنے پر چھوٹی بچیاں، بچوں سے زیادہ پرعزم ثابت ہوئیں۔
'پروسیڈنگز آف دا نیشنل اکیڈمی آف سائنسز' نامی جریدے میں چھپنے والی اس تحقیق کے لیے 500 بچے منتخب کیے گئے۔ یہ سب بچے چین کے ایک ہی سکول سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں سے چند بچوں کا تعلق چین کے ایسے خاندانوں سے تھا جہاں روایتی طور پہ مرد ہی خاندان کا سربراہ ہوتا ہے۔ بچوں کا دوسرا گروہ اس خاندانی نظام سے تھا جہاں بچوں کی نانیاں دادیاں خاندان کی سربراہ ہوتی ہیں اور والد کو عام طور پر کوئی خاص ذمہ داری نہیں سونپی جاتی۔
تحقیق اس طرح کی گئی کہ لاٹری کے چند ٹکٹ ایک طرف رکھے گئے جن پر یقینی انعام تھا جب کہ چند ٹکٹ ایسے رکھے گئے جن پر انعام تو بڑا تھا لیکن ان میں سے چند خالی بھی تھے۔ جب پرائمری کے بچے آئے تو لڑکیوں نے لڑکوں کی نسبت بڑے انعام والے ٹکٹ زیادہ اٹھائے حالاں کہ اس میں بالکل ہار جانے کا خطرہ زیادہ تھا۔ مڈل کے بچوں میں رجحان ملا جلا تھا اور یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ مستقبل میں کون بچہ کس قدر خطرات پسند ہو گا۔ مجموعی طور پہ لڑکیوں نے زیادہ تر وہ ٹکٹ اٹھائے جو بڑے انعام والے تھے۔
تحقیق کنندگان کے مطابق رسک لینے میں سب سے زیادہ اہم انسان کی تربیت ہوتی ہے۔ اس رپورٹ میں یہ سفارش بھی کی گئی کہ اگر بچیوں کو شروع سے یہ سکھایا جائے کہ انہیں باہمت ہونا ہے اور مشکل فیصلے کرنا ہے تو ان کا مستقبل کہیں بہتر ہو سکتا ہے۔ صنفی اقدار بدلنے میں وقت لگتا ہے لیکن انفرادی سطح پہ بہرحال اس تربیت کی اہمیت بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔