بنگلہ دیش میں اتوار کو پولیس کی ہجوم پر فائرنگ سے کم از کم چار ہلاکتوں کے بعد پیر کو ہزاروں مظاہرین پولیس کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔
تقریباً 20 ہزار مظاہرین اتوار کو جزیرہ بھولا میں فیس بک پر مبینہ طور پر توہین مذہب پر مبنی پیغامات پوسٹ کرنے والے ایک ہندو نوجوان کو قتل کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے، جب پولیس نے ان پر فائرنگ کر دی۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ پہلے ہجوم نے اہلکاروں پر پتھراؤ کیا۔ فائرنگ کے اس واقعے میں چار افراد ہلاک جبکہ 50 کے قریب زخمی ہوئے، جن میں سے کم از کم سات کی حالت نازک ہے۔
ہلاکتوں کے بعد اتوار کو رات گئے اور پیر کو ہزاروں مظاہرین متعدد شہروں میں سڑکوں پر نکل آئے اور نعرے بازی کرتے ہوئے فائرنگ میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا۔
ڈھاکہ میں احتجاجی ریلی میں شامل مدرسے کے 22 سالہ طالب علم محمود الحسن نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’یہ ناقابل قبول ہے، پولیس نے غیر قانونی اور غیر آئینی طور پر مظاہرین پر فائرنگ کی۔ یہ ماورائے عدالت قتل ہے، ہمیں انصاف چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بھولا سے تعلق رکھنے والے ہندو نوجوان پر، جس کے فیس بک پیج پر پیغامات پوسٹ ہوئے، مذہبی کشیدگی پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
تاہم، وزیر اعظم شیخ حسینہ نے اتوار کو امن کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ایک مسلمان نے ہندو نوجوان کا فیس بک اکاؤنٹ ہیک کرنے کے بعد اسے ’جھوٹ پھیلانے‘ کے لیے استعمال کیا۔
مقامی پولیس چیف انعام الحق نے اے ایف پی کو بتایا بھولا میں احتجاج کرنے والے ہزاروں مظاہرین کے خلاف تفتیش شروع کر دی گئی ہے، تاہم فی الحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں جب کسی متنازع فیس بک پوسٹ پر بنگلہ دیش میں مذہبی نوعیت کے مظاہرے نہ ہوئے ہوں۔ 2016 میں مظاہرین نے مقدس اسلامی مقامات کے خلاف مبینہ توہین آمیز فیس بک پوسٹ پر ایک شمالی گاؤں میں مندر نظر آتش کر دیا تھا۔
اسی طرح، 2012 میں مظاہرین نے ساحلی کاکس بازار میں اسی طرح کے ایک اور توہین مذہب کے مبینہ واقعے پر ایک بدھ مت خانقاہ کو آگ لگا دی تھی۔