ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مریضوں کو دی جانے والی بے ہوشی کی دوا انہیں ماضی کے صدموں اور مخصوص قسم کے خوف (فوبیا) سے نجات دلانے میں مدگار ثابت ہوسکتی ہے۔
سائنسی جریدے ’سائنس ایڈوانسز‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اگر بے ہوشی کی دوا ’پروپوفول‘ کے استعمال کے اگلے روز لوگوں کو ان کی تکلیف دہ یادوں کو دہرانے کو کہا جائے تو ان کی یادداشت اس معاملے میں کافی کمزور ہو گی۔
جبکہ اس سے قبل سائنسدانوں سمجھتے تھے کہ اگر کسی کے ذہن میں کوئی یاد نقش ہو جائے، تو اسے مٹانا ناممکن ہوتا ہے۔
تاہم چوہوں پر کیے گئے تجربات میں یہ بات سامنے آئی کہ ایسا نہیں ہے، لیکن چوہوں کے دماغ میں لگائے جانے والے انجیکشنز انسانوں کے لیے مناسب نہیں تھے۔
ڈپریشن کا شکار لوگوں کے دماغوں کو بجلی کے جھٹکے دینے کا عمل بھی بری یادوں کو ختم کرنے کا ایک طریقہ تھا، لیکن یہ کوئی بہت زیادہ موثر نہیں تھا۔
پولی ٹیکنیک یونیورسٹی آف میڈرڈ سے منسلک ڈاکٹر بریان اسٹرینج نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ الیکٹرو کن ولسیو تھراپی ایک بہت ناگوار عمل ہے، لہذا مشکلات کا شکار بنانے والی جذباتی سوچوں کو منتخب کرکے ختم کیے جانے کے سلسلے میں اگر ہم کچھ آسان کرسکتے ہوں تو یہ زیادہ بہتر ہے۔‘
ڈاکٹر اسٹرینج اور ان کی ٹیم نے اس بات کا جائزہ لیا کہ ڈپریشن اور صدمے سے نکلنے کے علاج کے دوران مریضوں کو دی جانے والی بے ہوشی کی دوا منتخب شدہ یادوں کو مٹانے میں بھی مددگار ثابت ہوگی یا نہیں۔
جب ہسپتال میں مریضوں کو بے ہوشی کی دوا دی گئی تو انہوں نے یہ بات نوٹ کی کہ مریضوں نے سرجری سے قبل کچھ غائب دماغی کا مظاہرہ کیا، تاہم یادداشت کی یہ کمزوری بعد میں ٹھیک ہوگئی۔
اس بات کی جانچ کے لیے ڈاکٹر اسٹرینج کی ٹیم نے 50 مریضوں کو جذباتی سیریز پر مشتمل ایک سلائیڈ شو دکھایا، جن میں ایک کار ایکسیڈنٹ میں ملوث لڑکے اور ایک نوجوان خاتون پر حملے کی سلائیڈ بھی شامل تھی۔
ایک ہفتے کے بعد انہیں بے ہوشی کی دوا ’پروپوفول‘ دینے سے قبل اسی سلائیڈ شو کے کچھ حصے دکھائے گئے، تاکہ وہ اپنی یادوں کو تازہ کرسکیں۔
آدھے لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اپنی کہانی کو 24 گھنٹے بعد دہرائیں جبکہ وہ کہانی بھی، جو بے ہوشی کی دوا دینے سے قبل ان کے ذہن میں چل رہی تھی۔
محققین نے یہ پتہ چلایا کہ یہ لوگ کسی بھی کہانی کو دہرانے میں ناکام رہے۔
ڈاکٹر اسٹرینج کے مطابق، پروپوفول کے اثرات کے حوالے سے دلچسپ بات یہ تھی کہ یہ کہانیوں کے منتخب شدہ جذباتی حصوں کو بھلانے کے لیے کارآمد تھی، چاہے وہ تشدد کے وقعات ہوں یا کوئی چوٹ، اسے یاد کرنا یا دہرانا ان افراد کے لیے بہت مشکل تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ورچوئل رئیلٹی کو استعمال کرکے ناخوشگوار یادوں کو بھلایا جاسکتا ہے، تو مخصوص قسم کے خوف مثلاً کار حادثوں یا بلندی کے خوف وغیرہ پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر اسٹرینج کے مطابق، ’اسے آزمانا چاہیے۔‘
ڈاکٹر اسٹرینج کا مزید کہنا تھا، پروپوفول کے علاوہ دیگر دوائیں، جیسے کہ کیٹامین بھی اس طرح کے علاج میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن میں اسی طرح کی تحقیق کرنے والے ڈاکٹر روی داس کے مطابق یہ مقالہ تحقیق کے میدان میں ایک دلچسپ پیش رفت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ابھی تک یادوں کو براہ راست کمزور کرنے کے حوالے سے کوئی علاج دریافت نہیں ہوا، تاہم یہ مقصد ابھی حاصل کیا جانا باقی ہے۔‘