یہ 1971 کی بات ہے جب بھارت میں عام انتخابات ہوتے ہیں اور اندرا گاندھی اپنے آبائی حلقے امیٹھی ’رائے بریلی‘ سے مخالف امیدوار راج نارائن کو بھاری اکثریت سے شکست دیتی ہیں۔ راج نارائن اندار گاندھی کی فتح کو الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیتے ہیں۔
جسٹس سہنا کی قیادت میں الہ آباد ہائی کورٹ کا بینچ سرکاری وسائل کے استعمال اور بدعنوانی کے الزامات ثابت ہونے پر طاقت ور ترین وزیر اعظم اندرا گاندھی کو نااہل قرار دے کر ان کی جیت کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیتا ہے۔ اندرا گاندھی اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرتی ہیں اور عبوری حکم امتناعی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔
حکم امتناعی لینے کے بعد پارلیمنٹ میں کانگرس کی بھاری اکثریت کے بل بوتے پر 39ویں آئینی ترمیم منظور کروا لیتی ہیں۔ اندرا گاندھی جو ترمیم لاتی ہیں اس کے مطابق جو شخص بھارت کا صدر، نائب صدر، وزیر اعظم یا لوک سبھا کا سپیکر رہا ہو انتخابات کے وقت اس کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال نہیں ہوگی اور وہ انتخابات لڑنے کا اہل ہو گا۔
اس آئینی ترمیم کے تحت یہ بھی طے کر دیا گیا کہ ان عہدوں پر منتخب ہونے والوں کو (کسی بھی عدالت میں) چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ بھارتی آئین کے مطابق وزیر اعظم منتخب لوگوں کو مشاورت میں شامل کر کے فیصلے کرنے میں بااختیار ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آئین اور قانون کے مطابق منتخب قائد ایوان بیک جنبش قلم آرمی چیف کو بھی عہدے سے ہٹا سکتے ہیں۔ اندرا گاندھی چونکہ ہندوستان کی آزاد عدلیہ کو بھی زیر دام لانا چاہتی تھیں اور چاہتی تھیں کہ وہ ماورائے آئین کام کریں اور روک ٹوک والا کوئی نہ ہو۔ اپوزیشن کے خلاف وہ انتقامی کارروائی کرنا چاہتی تھیں، اسی لیے انہوں نے 39ویں آئینی ترمیم متعارف کروائی تھی۔
بھارت کی اعلیٰ عدلیہ نے اندراگاندھی بنام راج نارائن کیس میں اس آئینی ترمیم کو دستور کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم قرار دے کر باہر پھینک دیا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ 39ویں آئینی ترمیم کے تحت صدر، نائب صدر، وزیر اعظم اور سپیکر کے انتخابات کے عدالتی جائزے کا اختیار ختم کر دیا گیا جو بنیادی آئینی ڈھانچے کے منافی ہے۔
علاوہ ازیں اس ترمیم سے صاف شفاف الیکشن سے متعلق بنیادی آئینی ڈھانچے کی فہرست میں شامل نکتہ نمبر 17 بھی غیرموثر بنا دیا گیا ہے۔ تاہم عدالت نے قرار دیا کہ اگر کوئی جماعت اس 23 نکاتی بنیادی آئینی ڈھانچے کے برعکس کوئی ترمیم کرنا چاہتی ہے تو اسے اس معاملے کو اپنے انتخابی منشور میں شامل کرنا پڑے۔ اگر انتخابات میں عوام اسے مینڈیٹ دے دیں تو پھر وہ بنیادی آئینی ڈھانچے میں شامل اس معاملے پر بھی ترمیم کرسکتی ہے۔
بھارت کی عدلیہ طاقت ور ترین وزیر اعظم کے خلاف فیصلہ دیتی ہے۔ اندرا گاندھی اقتدار میں ہی رہتی ہیں اور جج بےخوف اپنا کام کر رہے ہوتے ہیں۔ جسٹس سہنا اپنی مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہوتے ہیں۔ ان کے خلاف کوئی صدراتی ریفرنس نہیں آتا اور نہ وہ انتقام کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔
میں چونکہ ایک کورٹ رپورٹر ہوں لہٰذا ہمارے وکلا اعلیٰ عدلیہ کے سامنے جب دلائل دے رہے ہوتے ہیں تو ان دلائل میں وہ بھارت کے علاوہ دنیا بھر کی آئینی اور قانونی حوالے دیتے ہیں۔
آج کل ہماری اعلیٰ عدلیہ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر روزانہ کی بنیادوں پر سماعت ہو رہی ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ اعلیٰ عدلیہ میں آئین اور قانون کے مطابق ٹھیک کیس نمٹا رہے ہوتے ہیں پھر آخر کیا وجہ بنی کہ وہ طاقت وروں کی آنکھوں میں چبھنے لگے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سامنے مشہور زمانہ ’فیض آباد دھرنا‘ کیس لگتا ہے اور وہ اپنے فیصلے میں ان چیزوں کو بےنقاب کرتے ہیں جو اس دھرنے کے پیچھے ہوتی ہیں۔
میں یہاں جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال کی ایک کتاب ’اپنا گریباں چاک‘ کا ایک حوالہ دوں گا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک فوجی کرنل کسی کریمنل کیس میں ملوث تھا۔ معاملہ جسٹس شمیم حسین قادری کے سامنے تھا۔ انہوں نے کرنل کی سرزنش کی کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، جس پر بھٹو نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سردار اقبال کو اسلام آباد طلب کیا اور ہدایت دی کہ اپنے جج صاحبان کو سنبھالیے ’ہم ابھی جنگل سے باہر نہیں نکلے۔‘
سردار اقبال نے جسٹس شمیم قادری کو بھٹو کا پیغام پہنچایا جس پر جسٹس قادری اتنے خوف زدہ ہوئے کہ معافی تلافی کی غرض سے کمانڈر ان چیف جنرل ٹکا خان تک جا پہنچے اور شاید ان کی درازی عمر کے لیے بکرے کی قربانی بھی دی۔
جسٹس فائز عیسیٰ بھی درازی عمر کے لیے بکرے کی قربانی دیتے تو کبھی بھی ریفرنس نہ آتا مگر ان کی رگوں میں محمد علی جناح کے ساتھی قاضی عیسیٰ کا خون دوڑ رہا ہے جو خود بھی اعلیٰ پائے کے قانون دان تھے، جو ہمیشہ آئین اور قانون کی سربلندی کی بات کرتے تھے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہو کہ قاضی فائز عیسیٰ آئین اور قانون سے بالاتر کوئی کام کریں۔
نوٹ: ادارے کا اس کالم میں دی جانے والی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔