کالا چہرہ، کالی رنگت، کالی کلوٹن، یہاں تک کہ کلو آپا سے لے کر کلو خالہ تک سنے لیکن آج سے پہلے یہ الفاظ کبھی اتنے برے نہیں لگے۔
کیوں کہ ہمیں سانولی رنگت کا کوئی خاص احساس نہیں تھا۔یہ ہی پتہ تھا کہ میں تیار ہو کر بہت اچھی لگتی ہوں۔تیس سالوں میں اکا دکا برے تجربے بھی ہوئے۔ لیکن پچھلے ایک دو ماہ میں زیادہ ٹی وی، اورخاص کر پاکستانی ڈرامہ دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔جو احساس دلاتا ہے کہ آج ڈرامے کا معیار صرف گوری رنگت ہے۔
بہت سے قارئین کو میرے یہ جملے کافی نامناسب اور برے لگیں گے، اور انداز تلخ ۔ لیکن پچھلے کئی دنوں سے یہ ہی الفاظ ذہن میں گردش کر رہے ہیں ۔
جو ڈرامہ لگاؤ، جو اشتہار دیکھو، اس میں ایک حسین دلربا لڑکی اپنے سفید حسن کے جلوے بکھر رہی ہے۔ان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ کسی کی گوری رنگت ہونا اس کی خوبصورتی کی سند ہے ۔
اداکاری یاکردار نگاری کس چڑیا کا نام ہے؟ کردار کے لحاظ سے لباس ،پہناوے ،نشست برخاست اور جملوں کی ادائی ،وہ کیا ہوتی ہے؟ بس آپ نوجوان اور خوبصورت یعنی صرف گوری ہوں ، آپ شرطیہ ڈرامہ کاحصہ ہوں گی ۔اگر غلطی سےسانولی سلونی ہو کر بھی کوئی چہرہ فوٹو جینک ہے اور کیمرے پر اچھا لگتا ہے تو میک اپ آرٹسٹ نے اداکارہ کے کہنے پر یا بحکم ڈائریکٹر اس دبتے ہو ئے گندمی چہرے پر کومپیکٹ پاؤڈر مل مل کر سفید چمڑی کرنے کی پوری کوشش کی ہوگی جو صاف اور واضح فرق کے ساتھ محسوس بھی ہوتاہے ۔
لاک ڈاون کے دوران چلتے پھرتے نظر جب جب ٹی وی اسکرین پر گئی ، سفید چٹا چہرہ ، سنہری بال اور میک اپ سے اٹا منہ ہی نظر آیا ۔
حیرانی ہوتی ہے کہ کیا ہم لوگ سائرہ کاظمی ، بشری انصاری ، روبینہ اشرف ، شہناز شیخ ،ماریہ واسطی، آمنہ شیخ کو بھول گئے یا ماڈلز میں ذی کیو، ژالےسرحدی ، آمنہ الیاس ، ریشم ، رباب وغیرہ کیا ٹی وی انڈسٹری کے بڑے نام نہیں رہے؟
پچھلے دنوں ثمینہ پیرزادہ کا پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جس میں اداکارہ فریال محمود نے ثمینہ کو بتایا کہ 'مجھ پر بہت دباؤ تھا کہ میں گوری اوردبلی پتلی نظر آؤں ۔' ان کا یہ بھی اعتراف تھا کہ فی الزمانہ پاکستان میں اچھی اداکاری کی صلاحیت اتنی متاثر کن نہیں ،جتنی آپ کی جلد کی رنگ اثر رکھتی ہے ۔ مجھے کہا گیا کہ میں بھی گورے رنگ کے لیے ٹیکے لگوا لوں ۔ چلیں وزن تو ورک آوٹ کر کے کم کر لیا ہے لیکن کم از کم میں ٹیکے لگوا کر گورا ہونے کے لیے تیار نہیں ۔ میں اپنی جلد کے رنگ کے ساتھ خوش ہوں۔'
یقینا اس بات سے سب لوگ متفق ہونگےکہ جس طرح گورا رنگ ہونا کوئی کمال نہیں ۔ اس ہی طرح کالے یا گندمی بلکہ جلد کے کسی بھی رنگ میں کوئی برائی نہیں ۔ چلیں گورا رنگ کرنے والی کریم بنانے والی کمپنیوں کو اپنا مال بیچنا ہے ۔ وہ نت نئے طریقے اور انداز اپنا کر اپنا مال مارکیٹ میں لے کر آتے ہیں ۔اور آگے بھی آتے رہیں گے ۔ان کا کاروبار یہ ہی ہے ۔ لیکن کیا ہمارے ٹی وی کےکرتا دھرتاؤں نے سوچا ہے کہ یہ سب دکھاکر ہم جیسے لوگوں کو بلاوجہ نفسیاتی مریض بنا سکتے ہیں؟ جب ایک اداکارہ اس دباؤ کو محسوس کر رہی ہے کہ گوری رنگت سے ہی کام چل جائے گا تو ایک عام لڑکی کیا کیا نہیں سوچتی ہوگی؟
چلیں مجھ جیسے لوگوں کے لیے جلد کی رنگت صرف ایک 'سکن ٹون' ہے ۔ ایک سادہ سا سوال ہے کہ کیا ہمارے معاشرے کا ایک بڑا حصہ 'سانولی سلونی محبوبہ' نہیں؟ یا یہاں کوئی 'لیلیٰ' نہیں رہتی؟ اس سے زیادہ کیا کہوں کہ جب ایک ماں اپنی دوسری بیٹی کی پیدائش پر یہ جملہ کہے کہ 'میں اس بار' دہی اور ناریل زیادہ نہیں کھا سکی، اس لیے یہ بچی گوری اورصاف رنگت کی حامل نہیں ۔ اچھی طرح یاد ہے کہ اس نے اپنے سانولے بیٹے کی پیدائش پر ایسا کوئی جملہ نہیں کہا تھا۔
کوئی ماں جب اپنے ننھے منھے وجود کو پہلی بار گود لیتے ہوئے یہ سب کہے تو حیران اور افسوس کرنے کے سوا کچھ نہیں کیاجاسکتا۔ اس بچی کے بارے میں آج سب کا خیال ہے کہ وہ پانچ سال کی عمر کی ہونے کے باوجود اپنے بڑے بہن بھائیوں کے مقابلے زیادہ سمجھدار اور میرے مطابق زیادہ حسین ہے ۔
معاشرہ پہلے ہی ہم خواتین کونہ جانے کس کس دباؤ میں رکھنے کا عادی ہے ۔ عورت کی تعلیم کی کسی کو فکر نہیں ، اسے باشعور بنانا بھی ضروری نہیں، اس میں قوت فیصلہ بھی نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی اسے ہنر مند کرنے اور چار پیسے کمانے کے گر سکھائے جاتے ہیں۔
ہاں یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ تم میں کون کون سی ظاہری کمی ہے ۔تمھارا قد چھوٹا ہے۔ تم موٹی ہو اوپر سے تم کالی بھی ہو۔ جب گھر اور اطراف سے اسے یہ سننے کو ملے کہ سسرال جاؤ گی تو یہ کرنا ہے اور یہ نہیں۔ تھوڑا کھل کر کہیں تو عزت کی حفاظت سے لے کر غیرت کے نام پر قتل تک میں اس کا قصور یہ کہہ کر تلاش کر لیا جاتا ہے کہ 'وہ تھی ہی ایسی'۔
سب جانتے ہیں کہ ٹی وی کا کردار کم از کم ہمارے معاشر ے میں بہت اہم ہے۔اس کی عکاس کی گئی باتیں، پیش کردہ کہانیاں اور منظر نگاری ہمارے لوگوں کی سوچ کو تبدیل کرنے کااہم ذریعہ پہلے بھی تھیں اور آج بھی ہیں ۔ یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں کہ کل جب ایوب خان کو فاطمہ جناح کا مقابلہ کرنا تھا تو ٹی وی کا آغاز کیا گیا۔ اس لیے میری اتنی سی درخواست ہے کہ اسکرین پر صرف گورے چہرےکی 'تبدیلی' پر کام کرنا ہوگا۔
خوبصورت نظرآنا اوراچھا دکھنا کسے برا لگے گا؟ ہر انسان کا حق ہے وہ اچھا لگے ۔ لیکن یقین کریں اس کے لیے گوری رنگت ہونا کوئی لازمی شرط نہیں ۔ اور ہماری ٹی وی انتظامیہ اورخاص کر کہانی نویس ، ڈرامہ نگار اور ہدایات دینے والوں کو بھی اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ آج کل ڈرامے دیکھ کر آپ نوجوان بچیوں اور خواتین کو نفسیاتی دباؤ میں لا رہے ہیں ۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پڑھنے والوں کے لیے ایک مزے کی بات بتاؤں کہ ہمیں ہماری رنگت کے حوالے سے لباس کے انتخاب، میک اپ اور رنگوں کو منتخب کرنے کے حوالے سے کیا کیا سنے کو ملتاہے۔ سب سے پہلے تو 'اپنی عمر کا ہی لحاظ کر لو۔' 'کپڑے لیتے ہوئے کم از کم دیکھ تو لیا کرو، یہ رنگ تم پر اچھا بھی لگے گا۔' 'اتنا شوخ رنگ ۔۔۔ اب تم یہ پہنو گی' اور اپنا اور میرا مذاق بنواؤ گی، اور یہ سب جملے کہنے والے افراد ، ہمارے مخلص اور خیر خواہ ہوتے ہیں ۔ کوئی طنز نہیں کر رہے ہوتے ۔ ان تمام لوگوں کےلیے جن کے کان یہ باتیں سنے کے عادی ہیں ۔ ان کےاعتماد کو بحال کرنے کے لیے بتاتی چلوں کہ 2006 میں انڈین سوشل فورم- دہلی ، میں ہم نے خود دیکھا کہ جنوبی ہندوستان سے آئے ہوئے وفد کی خواتین بینگنی اور کھلتے ہوئے سرخ اور نارنجی رنگوں کی ساڑھیوں میں بہت خوبصورت لگ ری تھیں ۔ اگر اس رنگت کےساتھ ہمارے ہاں کی خواتین یہ رنگ پہن لیں تو غضب آجائے ۔ وہ منظر آج بھی مجھے کم از کم یہ طاقت دیتا ہے کہ رنگ کا انتخاب اور پسند کا پہناوا ،منتخب کرنا حق صرف اور صرف میرا ہے ۔ اور میں یہ حق کسی اور کو دینے کے لیے بالکل تیار نہیں۔
والدین سے یہی کہنا ہے کہ اپنی بچیوں کی شخصیت ان کی جلد کے رنگوں سے نہیں بلکہ انہیں تعلیم، ہنر، شعور اور قوت فیصلہ دے کر کریں ۔ یہی ان کے لیے آپ کا بہترین تحفہ ہے۔