نیوزی لینڈ کے شہری اس بات کو سوشل میڈیا پر ایسے بیان کر رہے ہیں، جیسے یہ 'سٹیفن کنگ کی فلم کا کوئی منظر ہو۔'
نیوزی لینڈ کے ایک نواحی علاقے میں کرونا کے باعث نافذ کیے جانے لاک ڈاؤن کے بعد اس علاقے کو اب خطرناک مرغیوں کی یلغار کا سامنا ہے۔ آکلینڈ کے نواحی علاقے تیتارنگی میں تقریباً 30 کے قریب مرغیاں اس دوران اپنا ٹھکانہ بنا چکی ہیں جب یہاں کے 4000 رہائشی کرونا کی وجہ سے گھروں تک محدود تھے۔
مقامی افراد کی جانب سے ان مرغیوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ یہ مرغیاں اس علاقے کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور صبح سویرے ان کے شور کی وجہ سے یہاں رہنے والے لوگ نیند کی کمی کا شکار ہو رہے ہیں۔
ویٹاکر رینجز کمیونٹی بورڈ کے سربراہ گریگ پریس لینڈ، جنہیں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ذمہ داری تفویض کی گئی ہے، کا کہنا ہے کہ 'کچھ لوگ ان سے بہت نفرت کرتے ہیں۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔
2019 کے بعد سے اس علاقے میں ان خطرناک مرغیوں کی تعداد کا تخمینہ تقریباً 250 لگایا گیا ہے۔ تیتارنگی میں ان مرغیوں کی تعداد اس وقت بڑھی، جب دس سال پہلےگھریلو مرغیوں کے ایک جوڑے نے فرار ہو کر آزادی حاصل کرلی تھی۔
لیکن کرونا کی وبا سے قبل مقامی انتظامیہ کی جانب سے دو کے علاوہ باقی تمام مرغیوں کو پکڑ کر قریبی فارم میں منتقل کرنے کے بعد اس علاقے کے لوگوں نے سمجھا تھا کہ یہ مسئلہ ختم ہو گیا ہے، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔
کئی ہفتوں کے لیے انسانی سرگرمیوں کے کم ہونے کے بعد مرغیوں کی تعداد دوبارہ سے بڑھ گئی ہے۔
گریگ پریس لینڈ نے دی گارڈین کو بتایا کہ 'اس واقعے نے علاقے میں موجود پرانی تقسیم کو دوبارہ بھڑکا دیا ہے۔' ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں کچھ رہائشیوں نے ان پرندوں کے لیے خوراک رکھ دی تھی جس کے بعد یہاں چوہوں کی تعداد میں بڑا اضافہ ہو گیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ اب ان مرغیوں کو پکڑنے کی کوششوں کو دگنا کر دیا جائے گا، گو کہ کچھ غصیلے مقامی افراد کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کو اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے فروزن چکن کمپنی سے مدد لینی چاہیے۔
گریگ پریس لینڈ نے ہنستے ہوئے کہا: 'یہ خیال اب کافی لوگوں کو متوجہ کر رہا ہے۔'
© The Independent