کرونا (کورونا) وائرس سے صحت یاب ہونے والے مریض کے پلازما سے دوسرے کووڈ۔19 کے مریضوں کے ممکنہ کامیاب علاج کی خبروں کے بعد پاکستان میں جہاں کئی لوگوں نے صحت یاب ہو کر پلازما عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا وہیں پلازما کی غیرقانونی خرید و فروخت بھی شروع ہوگئی ہے۔
وازت قومی صحت (نیشنل ہیلتھ سروسز) کی منظوری سےملک کے کئی ہسپتالوں میں پلازما تھراپی کے کلینکل ٹرائلز جاری ہیں۔ تاہم منگل کو ادارے نے خبردار کیا کہ پلازما تھراپی کو کرونا وائرس کا علاج نہیں سمجھا جانا چاہیے بلکہ اس سے مریض کو الرجی یا دوسری بیماریوں جیسے ایچ آئی وی یا ہیپاٹائٹس کی منتقلی کا خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں لاک ڈاؤن عملاً ختم ہونے کے بعد کرونا کیسز کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے اور 17 جون تک یہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد تھی، جن میں سے 58 ہزار سے زائد افراد صحت یاب ہوچکے ہیں۔
کرونا وائرس کے سنگین مریضوں کے لواحقین مہنگے داموں داوئیں خریدنے اور پلازما کے عطیوں کے لیے سوشل میڈیا پر پوسٹس ڈالنے پر مجبور ہیں۔ پلازما کے حصول کے لیے تگ ودو بڑھنے کے بعد یہ خبریں بھی گردش کرنے لگیں کہ اس کی غیر قانونی خرید و فروخت شروع ہو گئی ہے، بعض حلقوں نے ان خبروں کو ایک افواہ قرار دیا تو بعض نے کہا کہ غربت زدہ اور معاشی بدحالی سے متاثر طبقے اب پیٹ پالنے کے لیے یہی کریں گے۔
پلازما کا غیر قانونی کاروبار
لاہور کے ضوریز ریاض کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کے لیے ’کرونا ریکوورڈ واریئرز‘ نامی ایک فیس بک گروپ چلاتے ہیں، جہاں پلازما ڈونرز اور ضرورت مند ایک دوسرے سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ ضوریز کا کہنا ہے کہ یہ ذمہ داری سنبھالنے کے بعد ان کا بعض ایسے ’ڈونرز‘ سے بھی واسطہ پڑا جو پلازما دینے کے عوض پیسوں کا مطالبہ کررہے تھے۔
’یہ ایک مافیا ہے جو کافی تیاری کے ساتھ ایسی خبریں پھیلاتے ہیں۔ ان کو آسانی کے ساتھ ٹریس نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سوشل میڈیا پر مختلف گروپوں اور فورمز پر ایک ہمدردانہ اپیل کرتے ہیں، لیکن جب ان کی تصدیق کرنے جائیں تو نہ کوئی مریض ہوتا ہے اور نہ ہسپتال۔‘
ضوریز نے بتایا کہ ایک دن ایک صاحب نے ان کے پیج پر ایک پوسٹ لکھی کہ ان کے پاس کووڈ 19 کے کریٹیکل مریضوں کو دی جانے والی ایک اہم دوا موجود ہے جس کی مارکیٹ میں قیمت 10 سے 12 ہزار ہے۔ ’میرے فیس بک پیج کے ماڈریٹر نے جب ان صاحب کو کال کی تو انہوں نے مریض کے تیماردار سے بات کرنے پر اصرار کیا جس سے ہمیں شک ہوا۔ ہم نے مریض کے تیماردار سے کال کروائی تو انہوں نے تیماردار کو دوا کی قیمت ساڑھے تین لاکھ روپے بتائی۔‘
اسی طرح کا ایک تجربہ کرونا مریضوں کی مدد کے لیے ویب سائٹ آسان نیکی ڈاٹ کام چلانے والے طالب علم حمزہ شکیل کو بھی ہوا۔ انہوں نے بتایا: ’بعض رضاکاروں کی طرح میں بھی پلازما ڈونر ڈھونڈ رہا تھا لیکن ایک دن میری ایک ایسے شخص سے بات ہوئی جس نے مجھے پلازما کے بدلے 60 ہزار روپے دینے کا مطالبہ کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حمزہ کے مطابق وہ اس واقعے سے اتنے بد دل ہوئے کہ انہوں نے ڈونرز ڈھونڈنا ہی چھوڑ دیے۔ حمزہ اور ضوریز کی طرح بعض اور لوگوں نے بھی سکرین شاٹس بھیج کر انڈپینڈنٹ اردو کو باور کروایا کہ پلازما کی فروخت ایک حقیقت ہے۔
پلازما تھراپی کی افادیت پر سوال
جہاں وائرس سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کے پلازما کا حصول جاری ہے وہیں نئی تحقیقات اور اعلانات نے عوام کو کشمکش میں ڈال دیا ہے۔ وزارت قومی صحت نے ادویات کی نگرانی کے ادارے ڈریپ کو پلازما تھراپی کی جانچ کی نگرانی کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔
تاہم تقریباً دو ہفتے قبل چین کے اس اعلان کے بعد کہ پلازما سے مریضوں کو کوئی خاص شفایابی نہیں مل رہی، منگل کو وزارت قومی صحت نے ایک اعلان میں پلازما تھراپی کو کرونا وائرس کا علاج سمجھنے سے گریز کرنے کی تاکید کی۔
وزارت قومی صحت کے مطابق کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے پلازما کا استعمال ابھی ایک تجرباتی تھراپی ہے اور اس پر کلینکل ٹرائلز صرف حکومت سے منظور شدہ ہسپتالوں میں قابل معلجوں کی نگرانی میں جاری ہیں۔ تاہم ابھی اس تھراپی کے موثر ہونے کے حق میں یا اس کے خلاف ڈیٹا ناکافی ہے۔
وزارت قومی صحت کی گائیڈلائنز کے مطابق پلازما تھراپی پر تحقیق کرنے والوں کو اپنے پروٹوکول کے لیے حکومت سے منظوری حاصل کرنی چاہیے اور ان کا ادارہ وزارت صحت سے منظور شدہ ہونا چاہیے جس میں نگرانی کے تحت تھراپی شروع کی جاسکتی ہے۔
ادارے نے شہریوں کو اگاہ کیا کہ وہ پلازما تھراپی کے بارے میں جاننے یا کلینکل ٹرائل میں اندارج کروانے کے لیے منظور شدہ ہسپتالوں سے رابطہ کریں اور بلڈ بینکس یا دیگر ہسپتالوں سے پلازما نہ خریدیں۔
پشاور میں پلازما تھراپی کے مراکز
وزارت قومی صحت کی جانب سے اس بیان کے بعد پشاور میں پلازما کی منتقلی کے مرکزی ہسپتال حیات آباد میڈیکل کمپلکس (ایچ ایم سی) کے پروفیسر ڈاکٹر شاہ تاج کا کہنا ہے کہ ایچ ایم سی اپنی ٹرائلز کی کمپائلیشن کرکے ہی کوئی فیصلہ کرے گا۔
’ایچ ایم سی ڈریپ کو روزانہ کی بنیاد پر رزلٹ بھیجتے ہیں۔ ابھی ان کی جانب سے ہمیں اس ٹرائل کو بند کرنے کی اطلاع نہیں ملی لیکن ہم یہ فیصلہ اسی وقت کر سکیں گے جب ہم اس تجربے کو درکار وقت دیں گے۔ پھر اس کا جائزہ لے کر کمپائلیشن کرکے ہی اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ کیا پلازما کی منتقلی واقعی موثر ہے کہ نہیں۔‘
پلازما کی افادیت کے بارے میں اگرچہ ایک کنفیوژن پیدا ہو گئی ہے- تاہم بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ پلازما کو پرانے وقتوں میں ہسپانوی فلو کی وبا کے دوران استعمال کیا جا چکا ہے جبکہ ایبولا اور سارس میں بھی پلازما کی منتقلی کا طریقہ علاج اپنایا جا چکا ہے۔
ڈاکٹر شاہ تاج کا کہنا ہے کہ اس وقت پورے خیبر پختونخوا میں صرف حیات آباد میڈیکل کمپلکس، رحمٰن میڈیکل انسٹی ٹیوٹ، لیڈی ریڈنگ ہسپتال اور نارتھ ویسٹ ہسپتال ہی پلازما کی منتقلی کروانے کی سند رکھتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پلازما کی منتقلی کے لیے سب سے پہلے ایسے شخص کی فٹنس دیکھی جاتی ہے اور پھر اس کے ضروری ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ تب ہی فیصلہ کیا جاتا ہے کہ وہ پلازما دینے کے قابل ہے بھی یا نہیں۔ واضح رہے کہ طبی ماہرین کے مطابق پلازما عطیہ کرنے کے شرائط میں یہ ضروری ہے کہ صحت یاب مریض کے دو ٹیسٹ منفی آئے ہوں اور آخری ٹیسٹ منفی آنے کے بعد بھی وہ 14 دن قرنطینہ میں گزار چکا ہو۔