خیبر پختونخوا حکومت نے ضلع شانگلہ کے کروڑہ پولیس سٹیشن کی حوالات میں ایک ملزم کے مردہ حالت میں پائے جانے کا نوٹس لیا ہے۔
شانگلہ پولیس کی جانب سے گذشتہ شب ایک بیان جاری کیا گیا تھا جس میں کروڑہ پولیس کی جانب سے ایک مبینہ منشیات فروش ٹرک ڈرایئور سید علی اکبر کو ناکے پر گرفتار کرنے او ران کے قبضے سے مبینہ طور پر سو گرام سے زائد چرس برآمد کرنے کاکہا گیا تھا۔
تاہم جمعرات کی صبح یہ خبر سامنے آگئی کہ وہ ملزم پولیس حوالات میں مردہ حالت میں پایا گیا ہے جن کے گلے کے ساتھ پتلا کمبل کا پھندہ لگا ہوا تھا جو حوالات کی سلاخوں کے ساتھ باندھا ہوا تھا۔
ملزم کی حوالات میں ہلاکت کا مقدمہ جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے، تھانے کے ایڈینشل سٹیشن ہاؤس آفیسر نصیب زادہ کے خلاف ملزم کے رشتہ دار سید محمد شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔
مقدمے کی کاپی میں لکھا گیا ہے کہ ملزم کو ایڈیشنل ایس ایچ نے کروڑہ بازار سے گرفتار کیا تھا اور انہیں تھانے تک مار مار کر لایا گیا تھا اور ساتھ میں ان کو جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔
ایف آئی آر میں سید محمد شاہ کے بیان کے مطابق ’میں جب ملزم سے ملنے تھانے گیا تو ملزم نے مجھے بتایا کہ ان پر بہت زیادہ تشدد کیا گیا ہے۔ صبح میں تھانہ میں موجود تھا کہ پولیس نے مجھے اطلاع دی کہ ملزم حوالات میں مر گیا ہے۔‘
’جب میں ملزم کو دیکھنے حوالات گیا تو ملزم کو پھانسی لگی ہوئی تھی اور میں اس قتل کا دعویٰ ایڈینشل ایس ایچ او پر کرتا ہوں، کیونکہ انھوں نے ملزم کو تشدد سے ہلاک کیا ہے اور بعد میں ان کو پھندہ لگایا تاکہ اس قتل کو خودکشی کا رنگ دے دیا جائے۔‘
صوبائی حکومت نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے تفتیش کا حکم دیا ہے۔
وزیر قانون سلطان محمد کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کی جانب سے صوبائی انسانی حقوق کے ڈائریکٹریٹ کو ہدایات جاری کی گئی ہے کہ وہ اس کیس کی جامع رپورٹ بنا کر پیش کریں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سلطان محمد کے مطابق اس واقعے کے اصل محرکات و وجوہات کو جاننے کی کوشش کریں گے تاکہ حقائق کی روشنی میں بہتر کارروائی کی جا سکے۔
اس حوالے سے شانگلہ کے ضلعی پولیس آفیسر محمد اعجاز خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس کیس میں آزاد انکوائری کی ہدایت کی گئی ہے۔
شانگلہ پولیس کی جانب سے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے سپیشل جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم(جے آئی ٹی) بنائی گئی ہے جو واقعے کی تفتیش کرے گے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ پولیس لاک اپ میں ملزم کی ہلاکت کس وجہ سے ہوئی۔
انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ملزم کی پوسٹ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ملزم کے جسم کی تمام ہڈیاں، جوائنٹس اور پھٹوں میں کوئی خرابی نظر نہیں آئی تاہم ملزم کی گردن کی ہڈی نارمل نہیں پائی گئی جس پر ماہر فارنزک کی تجویز کی ضرورت ہوگی۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ملزم کے گردوں، دل، پھیپڑوں، معدے اور جگر کے نمونے لے کر پولیس کے حوالے کیے گئے ہیں۔
اس واقعے کے خلاف اہل علاقہ کی جانب سے پولیس کے رویے کے خلاف مظاہرہ بھی کیا گیا جس میں ملزم کے علاقے کے عمائدین سمیت دیگر مظاہرین شریک تھے۔
مظاہرین نے مرکزی شاہرہ بشام الپوری روڈ کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا تھا۔
ان مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ ملزم کی ہلاکت چونکہ پولیس حوالات میں ہوئی ہے تو ان کے ذمہ دار پولیس ہے اور ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔
مظاہرین نے پولیس سے چند سوالات کے جوابات بھی مانگ ے ہیں۔ جیسے کہ اگر ’ملزم نے خودکشی کر کے اپنے آپ کو پھانسی لگائی تھی تو ملزم کو پھندہ کس نے فراہم کیا اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس قتل میں پولیس خود ملوث ہے لیکن اس کو خودکشی کا رنگ دیا جا رہا ہے۔‘