بھارت میں 41 سالہ شہری پر حملہ کرنے اور انہیں بے جا حراست میں رکھنے پر تین پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا۔
متاثرہ شہری نے بیوی کے اغوا اور انہیں مبینہ طورپر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنائے جانے کے بعد مدد کے لیے پولیس سے رابطہ کیا تھا۔
پولیس کے مطابق دلت برادری ( جسے ماضی میں اچھوت سمجھا جاتا تھا ) سے تعلق رکھنے والے شہری، جن کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، ریاست اترپردیش کے شہر مین پوری کے باہر اپنی 38 سالہ بیوی کے ساتھ موٹرسائیکل پر جارہے تھے کہ ایک کار میں سوار تین افراد نے میاں بیوی پر حملہ کر دیا۔
سینیئر مقامی پولیس افسر شیو سنگھ چوہان نے اخبار انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ حملہ آوروں نے کار کھڑی کرکے موٹر سائیکل کا راستہ روکا اور خاوند کی آنکھوں میں پسی ہوئی سرخ مرچیں ڈال دیں۔ حملہ آور متاثرہ شہری کی موٹرسائیکل کو ناکارہ بنانے کےبعد خاتون کو کار کی پچھلی سیٹ پر بٹھا کر لے گئے۔
پولیس افسر کے مطابق متاثرہ شہری اپنی ناکارہ موٹرسائیکل چار کلو میٹر تک گھسیٹ کر ضلع مین پوری کے علاقے بچھون تک گئے جہاں ایک راہگیر کی مدد سے پولیس کنٹرول روم ٹیلی فون کیا اور انہیں واقعے کے بارے میں بتایا۔
متاثرہ شہری پولیس افسروں کو جائے واردات پر لے گئے اور انہیں تمام واقعہ بتایا لیکن پولیس ٹیم نے انہیں ہی قصور وار ٹھرا کر پوچھ گچھ کے لیے تھانے لے گئے۔
مین پوری پولیس کے سپرنٹینڈنٹ اجے شنکر رائے نے کہا کہ پوچھ گچھ کے دوران پولیس افسروں نے ان پر حملہ کر دیا اور مارا پیٹا۔ طبی معائنے میں شہری کی کمر اور ٹانگوں پر زخم سامنے آئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
متاثرہ شہری کی بیوی اغوا کے تقریباً پانچ گھنٹے کے بعد تھانے پہنچیں۔ انہوں نے بتایا کہ حملہ آوروں نے انہیں سڑک پر پھینک دیا تھا۔ وہ گھر پہنچیں تو انہیں پتہ چلا کہ ان کے خاوند کو پولیس نے پکڑ رکھا ہے۔
پولیس نے متاثرہ شہری کو رہا کرتے ہوئے تین نامعلوم افراد پر مبینہ حملے، خاتون کے اغوا اور اجتماعی زیادتی کا مقدمہ درج کر لیا۔
پولیس سپرینٹینڈنٹ اجے شنکر رائے نے کہا کہ انہوں نے واقعے کی انکوائری شروع کردی ہے اور ایک پولیس افسر سمیت دو کانسٹیبلوں کو معطل کر دیا۔
’نیشنل دلت موومنت فار جسٹس ‘ کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر وی ای رامیش ناتھن کہتے ہیں کہ اغوا کے بعد خاتون سے اجتماعی زیادتی اور ان کے خاوند پر پولیس تشدد کے واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پورے بھارت میں دلتوں کو سرکاری حکام اور اونچی ذات کے لوگوں کے ہاتھوں اب بھی امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔
بھارت میں چھوٹی ذاتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنائے قومی کمیشن نے گذشتہ ماہ کہا ملک میں 1949 میں بننے والے آئین میں ’ اچھوت ‘ کے تصور کو غیرقانونی قرار دے دیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود دلتوں کے خلاف نفرت کے 40 ہزار مقدمات زیرالتوا ہیں۔ بھارت میں ’ شیڈولڈ ‘ کا لفظ دلتوں اور چھوٹی ذات کے دوسرے گروپوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر وی ای رامیش ناتھن نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا اگرچہ سخت قانون کے تحت ذات کی بنیاد پر کسی کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنانا سنگین جرم ہے لیکن اس کے باوجود امتیازی سلوک کے ہر روز کئی واقعات ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے اترپردیش میں پیش آنے والا واقعہ بھی انہی واقعات جیسا ہے۔ یہ معمول کی بات ہے کہ جب لوگ پولیس کے پاس جاتے ہیں تو سب سے پہلے متاثرہ افراد کو ہی مشتبہ سمجھ لیا جاتا ہے لیکن غیر دلت افراد کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا کیونکہ وہ سماجی، معاشی اور سیاسی طورپر طاقتور ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر وی ای رامیش ناتھن کہتے ہیں کہ پولیس آزادی کے ساتھ کام نہیں کر سکتی کیونکہ ذات کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے جرم پر سخت سزا کے امکانات کم ہیں اور ملک میں ذات کی بنیاد پر تقسیم کا مسئلہ حل کرنے کے سیاسی عزم بھی نہیں پایا جاتا۔
ان کا کہنا تھا ذات پات کا نظام ایک بیماری سمجھا جانا چاہییے جو قوم کو لاحق ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ جب بھارت میں مؤثر مہم چلا کر پولیو، ہیضے اور ملیریا کی وبا کو بڑی حد تک ختم کردیا گیا۔
ڈاکٹر وی ای رامیش ناتھن کہتے ہیں کہ ریاستی حکومتیں غیردلت افراد میں آگاہی کے لیے اقدامات کریں اور امتیازی سلوک کے ہرمقدمے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تو مستقبل میں ایسے واقعات نہیں ہوں گے۔
© The Independent