لاہور کے تعلیمی ادارے فارمین کرسچن کالج یونیورسٹی (ایف سی کالج) نے تاریخ کے پروفیسر عمار علی جان کو مستقل نوکری سے برخاست کر دیا۔ گذشتہ ہفتے ادارے نے پروفیسر پرویز ہود بھائی کا کانٹریکٹ بھی بڑھانے سے انکار کیا تھا لیکن بعد ازاں ساتھ معاملات یہ طے پائے کہ وہ ایک سیمیسٹر مزید پڑھائیں گے۔
عمار علی جان نے ہٹائے جانے کا اعلان ٹوئٹر پر کرتہ ہوئے لکھا کہ انہیں انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ وہ ایف سی کالج میں مزید نہیں پڑھا سکیں گے۔
انہوں نے لکھا کہ اس سال کے آغاز میں ان کا کانٹریکٹ اسسٹنٹ پروفیسر سے تبدیل کر کے وزیٹنگ فیکلٹی کر دیا گیا تھا لیکن اب وہ بھی نہیں رہا۔
I sadly announce that I will no longer be teaching at Forman Christian College. Earlier this year, my contract was changed to visiting faculty from the position of Assistant Professor. Now I wont continue as a visiting lecturer either.
— Ammar Ali Jan (@ammaralijan) June 20, 2020
After returning to Pakistan in 2016, was
تقریبا تیرہ ٹوئٹس کی سیریز میں عمار علی جان نے لکھا کہ 2016 میں پاکستان آنے کے وقت وہ ملک کی کسی سرکاری یونیورسٹی سے وابستہ ہونا چاہتے تھے۔ انہوں نے لاہور کی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی میں پڑھایا لیکن دونوں ہی مواقع پر انہیں 'قومی سلامتی' کی حفاظت کا بہانہ بنا کر نکال دیا گیا۔
'اس موقعے پر کچھ قریبی دوستوں اور ہمدرد اساتذہ نے مجھے ایف سی کالج میں ایک نوکری کے بارے میں بتایا۔ ایف سی کالج نے مجھے موقع دیا کہ میں کسی حد تک مالی استحکام حاصل کر سکوں، اپنا علمی نوعیت کا کام کر سکوں اور مسلسل سرکاری پوچھ گچھ سے کچھ دور رہ سکوں۔ بالآخر میں پاکستان میں پرسکون محسوس کر رہا تھا۔
لیکن طلبہ یکجہتی مارچ کے وقت یہ پھر سے تبدیل ہونے لگا، مجھ پر انتشار پھیلانے کا الزام لگایا گیا۔ مارچ کے بعد مجھ پر غداری کا مقدمہ بنا دیا گیا اور میرے ایک سابق شاگرد عالمگیر وزیر کو گرفتار کر لیا گیا۔
نامعلوم افراد نے مجھے نوکری سے نکالنے کے لیے ایف سی کالج انتظامیہ پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔
مجھے کہا گیا کہ ہر قسم کی عوامی سرگرمیاں بند کر دوں کیونکہ ایف سی کالج انتہائی ’حساس‘ صورت حال میں ہے اور متنازع ہونا نہیں برداشت کر سکتا۔
میں نے کہا کہ میرے خلاف ایک مقدمہ بغاوت کا بنایا گیا ہے جب کہ میرا سابق طالب علم ملک میں تعلیمی اصلاحات اور طلبہ یونینز کی بحالی کا مطالبہ کرنے پر جیل میں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان حالات کے ہوتے ہوئے میں اس شاگرد کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا، خاص کر جب ریاست کی جانب سے ایک شدید کریک ڈاؤن جاری ہے۔
عمار جان نے لکھا میں نے واضح کیا کہ یونیورسٹی کو طلبہ اور اساتذہ کے مسائل اجاگر کرنے چاہئیں، نہ کہ ریاستی تحفظات ہی ہمارے آگے دہرا دیے جائیں۔
میں غلط تھا اور مجھے بتایا گیا کہ یا تو میں خاموش ہو جاؤں یا پھر یہ نوکری چھوڑ دوں۔
میں نے دوسرے آپشن پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔
ایف سی کالج سے میری بہت خوبصورت یادیں وابستہ ہیں جہاں مجھے طلبہ اور اساتذہ کی جانب سے بے انتہا محبت ملی جو مجھ سے سیکھنے کے متمنی تھے اور مجھے چیلنج بھی کرتے تھے۔
میں اس وقت کے لیے شکرگزار ہوں جو میں نے یہاں گزارا۔ یہاں موجود عمارتیں، لان، کیفے اور میرا چھوٹا سا دفتر، یہ سب خوبصورت یادیں جو مجھے ابھی سے بہت پرانی لگنے لگی ہیں۔
انہوں نے اپنے ٹوئٹر تھریڈ میں مزید لکھتے ہوئے بتایا، میرا خیال ہے کہ پاکستان میں بطور استاد میرا سفر ایف سی کالج کے ساتھ اس افسوسناک انجام پر ہی ختم ہو گیا ہے۔
بعد ازاں متعدد جگہ پر انہوں نے اپنے موقف کی وضاحت دی اور کہا کہ یہ بات تو طے ہے کہ جو لوگ اس ملک کو چلا رہے ہیں وہ لوگوں کو اپنا کام کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔
اس موقعے پر معروف صحافی ریما عمر کا ردعمل یہ تھا کہ عمران خان ہمیشہ پاکستانیوں کو باہر ملک سے واپس بلانے کی بات کرتے ہیں تاکہ وہ یہاں اپنے لوگوں کی خدمت کر سکیں، اب یہ سب کچھ ان کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے۔
PM @ImranKhanPTI, you always ask Pakistanis abroad to come back home to serve
— Reema Omer (@reema_omer) June 20, 2020
Dr Ammar Ali Jan was one such academic, who now has no place to teach in any public university
Shameful and tragic that this assault on the academia and critical thinking is happening under your watch https://t.co/DsCklsP8PZ
ابن حسن نامی ٹوئٹر صارف کا کہنا تھا کہ عمار جان ففتھ جنریشن وار کا شکار ہوئے ہیں۔
Victim of 5th Generation War. https://t.co/xv43PmyDiJ
— Ibn-e-Hasan (@saeedma08417161) June 21, 2020
تیمور نامی صارف نے ان پر تنقید کرتے ہوئے سوال پوچھا کہ استاد کیا پڑھانے کے لیے ہوتے ہیں یا شاگردوں کو ریلیوں پر لے جانے کے لیے؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یونیورسٹیاں تعلیم کے لیے ہوتی ہیں نہ کہ کمیونسٹ یا مارکسسٹ سرگرمیوں کے لیے۔
Universities are for Education , not for Communist/Marxist Activities
— Timur (@TamerlaneTimur) June 20, 2020
What is The duty of a Professor to Educate or to take their Students to Anti-Rallies?
ایک اور صارف امجد نے عصر حاضر کے مشہور عرب شاعر نزار قبانی کی ایک نظم لکھی جس کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے کہ سوال پوچھنا گناہ ہے!
In a country where thinkers are assassinated,
— amjad (@amjadali333) June 21, 2020
And writers are considered infidels
And books are burnt,
in societies that refuse the other,
and force silence on mouths and thoughts forbidden,
and to question is a sin ~Nizar Qabbani https://t.co/SHnbZ1AYO2
زاہد نامی صارف نے ان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی ایم کی حمایت کی وجہ سے ان کے ساتھ یہ سب ہوا ہے۔
#PTM supporter in sheep clothing got whipped again !!! https://t.co/sPu6uIvkAO
— Zahid (@zahidali_ali) June 21, 2020
بھارتی ماہر اطفال ڈاکٹر وجے شنکر کا کہنا تھا کہ پاکستان ہو یا انڈیا، کہانی ہر جگہ ایک ہی ہے۔
Read the thread.....
— Dr. Vijayashankara (@vijayashankara) June 21, 2020
Whether it is India or Pakistan, the storyline is same. https://t.co/YxpLrGxgJo
معروف مصنف اور مورخ علی عثمان قاسمی نے اس امر کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی اکیڈیمیا میں علی جان جیسے سیاسی بالغ نظر اور پختہ رائے رکھنے والے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
Intellectual Wasteland that is Pakistani academia - no place for a political thinker and activist like Ammar Ali Jan https://t.co/1kiuLBB0vu
— Ali Usman Qasmi (@AU_Qasmi) June 20, 2020