یمن کے دارالحکومت صنعا میں نیلی دھاری دار قمیض میں ملبوس احمد الحمادی، ننگے پاؤں سکول سے قبرستان کی جانب جا رہا ہے، جہاں وہ کام کرتا ہے تاکہ اپنے خاندان والوں کے لیے روزی روٹی کما سکے۔
13 سالہ احمد کا قبرستان کی جانب سفر جاری ہے، جہاں قبریں موجود ہیں اور کچھ کے اوپر پودے بھی اُگے ہوئے ہیں۔
اپنے چھوٹے چھوٹے کاندھوں پر پانی کے ڈبے لٹکائے، وہ پودوں کو پانی دیتا ہے اور قبروں کی تختیوں پر بھی پانی کا چھڑکاؤ کرتا ہے، تاکہ ان پر جمع دھول مٹی اتاری جا سکے، اس کام کے لیے اسے ہلاک شدگان کے اہلخانہ کی جانب سے معاوضہ ملتا ہے۔
احمد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’ہم عموماً جنازوں کا انتظار کرتے ہیں، اگر کسی کی موت واقع نہیں ہوتی، تو ہم بس قبروں کے گرد جمع ہوتے ہیں اور یہاں کھیلتے ہیں۔‘
احمد یمن کے اُن سینکڑوں بچوں میں سے ایک ہے، جو اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے جدوجہد میں مصروف ہیں۔ عرب دنیا کے اس ملک کو جنگ، غربت اور بیماریوں نے اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔
احمد کے والد کو جب کوئی کام نہیں مل سکا تو پھر اسے اپنے خاندان کی کفالت کے لیے آگے آنا پڑا۔ قبرستان میں ملازمت کرنے سے قبل وہ سڑک پر سٹال لگایا کرتا تھا۔
15 سالہ یاسر ال ارباہی کو بھی اُس وقت قبرستان میں کام کرنا پڑا، جب اس کے والد کو فالج کو اٹیک ہوا، اس طرح اس کا ڈاکٹر بننے کا خواب ادھورا رہ گیا۔
اس کی روزمرہ مصروفیات کچھ یوں ہیں، صبح اٹھو، دوپہر تک کلاس لو اور پھر کھانے کے بعد قبرستان چلے جاؤ۔
یاسر نے بتایا، ’اگر کسی قبر کی صفائی کی ضرورت ہو، تو میں اس پر چھڑکاؤ کرتا ہوں۔ جمعے کو میں اپنے ساتھ پانی رکھتا ہوں تاکہ اپنے پیاروں کی قبروں پر آنے والے افراد کو فراہم کرسکوں۔‘
وہ اپنے کام سے مطمئن ہے، جس کا کہنا ہے، ’قبرستان میں زائرین کا بہت رش ہوتا ہے۔‘
مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے سرگرم عالمی تنظیم کے مطابق پوری عرب دنیا میں یمن میں چائلڈ لیبر کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ خصوصاً جنگ کی وجہ سے سب سے زیادہ خطرات بھی بچوں کو ہی برداشت کرنے پڑتے ہیں، جہاں بچیوں کی جبری شادیاں کردی جاتی ہیں جبکہ لڑکوں کو جنگجوؤں کے طور پر بھرتی کرلیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے بچوں کے حوالے سے فنڈ ’یونیسیف‘ نے 2018 میں یمن کو ’بچوں کے لیے ایک جہنم‘ قرار دیا تھا، جہاں 80 فیصد بچے امداد کے منتظر تھے۔
یونیسیف کے اعداد وشمار کے مطابق جنگ کا شکار اس ملک میں 20 لاکھ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔
یمن تنازع نے اُس وقت گھمبیر صورتحال اختیار کی تھی، جب سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے صدر عبدالرب منصور ہادی کی شہ پر یہاں مداخلت کی۔
آج (26 مارچ )کو سعودی عرب کی قیادت میں اتحادی افواج کی یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی کے آغاز کو چار سال ہوگئے ہیں، جسے اقوام متحدہ کی جانب سے دنیا کا بدترین انسانی المیہ قرار دیا گیا تھا۔
معشیت کی نازک حالت
عالمی بینک کے مطابق خانہ جنگی کا شکار اس ملک کی نازک معیشت، 2015 کے تنازع کے بعد 50 فیصد سکڑ چکی ہے۔
کرنسی اپنی قدر کھوچکی ہے، یمن کا نجی شعبہ مردہ ہوچکا ہے اور حکومت کے تحت چلنے والا مرکزی بینک، سعودی عرب کی جانب سے دو ارب ڈالر کیش رقم دیے جانے کے باوجود، سول سرونٹس کی تنخواہیں ادا کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔
زیادہ تر خاندانوں کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ آمدنی کے لیے اپنے بچوں پر بھروسہ کریں، جو کہ بعض اوقات چند ڈالرز ماہانہ سے زائد نہیں ہوتی۔
عاتکہ محمد تین سال قبل یمنی فوج میں افسر تھیں، لیکن اب وہ ایک چھوٹی سی کریانے کی دکان چلاتی ہیں اور اکثر وبیشتر ان کی دکان کے شیلف خالی ہوتے ہیں۔
اس ماہ ایک دن انہیں بہت سے بچوں کو خالی ہاتھ لوٹانا پڑا، کیونکہ ان کے پاس نہ تو فروخت کرنے کے لیے ڈبل روٹی تھی اور نہ ہی دودھ۔
عاتکہ نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، ’جنگ نے سب کچھ تباہ کردیا ہے، مجھے زیادہ نہیں چاہیے، ایمانداری کے ساتھ زندگی گزاری جائے تو ڈبل روٹی اور چائے بھی بہت ہے۔‘
حکومت اور باغیوں کے زیر کنٹرول بہت سے علاقوں میں اساتذہ کو بھی 2016 سے ان کی تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں۔
تاہم رواں ہفتے یونیسف نے آگے بڑھ کر ایک لاکھ اساتذہ میں 50 ڈالر ماہانہ کے حساب سے رقم تقسیم کی۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق گزشت چار سالوں میں یمن جنگ کے دوران تقریباً 10 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں، تاہم دائیں بازو کے کچھ گروپس کے مطابق یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔
سعودی اتحاد اور حوثی باغیوں دونوں پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں جبکہ سعودی اتحاد کو اقوام متحدہ کی جانب سے بلیک لسٹ بھی قرار دیا جاچکا ہے۔