بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی مینگل) نے مرکز میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مخلوط حکومت سے ایک درجن دھمکیوں کے بعد بالآخر یہ کہہ کر علیحدگی کا اعلان کیا ہے کہ حکمران جماعت نے بلوچستان کے حالات میں بہتری لانے کے لیے ان سے جو دو سال قبل وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں کیے۔
ویسے تو دنیا بھر میں سیاست دانوں کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ جو وعدے کرتے ہیں انہیں بمشکل نبھاتے ہیں لیکن بی این پی کو پی ٹی آئی کی وعدہ خلافی اور بےوفائی کا اس لیے زیادہ رنج ہوا کہ تحریک انصاف کی سینیئر قیادت نے حلفیہ طور پر یہ یقین دلایا تھا کہ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے سردار اختر مینگل کی جانب سے پیش کردہ چھ نکات پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
جب پی ٹی آئی حکومت سازی کے لیے مختلف جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوشاں تھی تو وہ غالباً یہ سمجھ رہی تھی کہ یہ چھ نکات محض علامتی مطالبات ہیں لیکن خود اختر مینگل کے لیے یہ نکات کچھ زیادہ ہی مقدس اورمعنی خیز تھے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن چھ نکات کے بارے میں ماضی میں مینگل صاحب یہ دھمکی دے چکے تھے کہ انہیں مشرقی پاکستان کے رہنما شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نکات سے کمتر نہ سمجھا جائے، انہیں پی ٹی آئی کی طرف سے یکسر نظر انداز کرنے اور بی این پی کی مرکزی حکومت سے علیحدگی سے اب کیا ہوگا؟
بلوچ بیانیہ
اس کا جواب اس بات پر منحصر ہے کہ آپ اس فیصلے کو کس زاویے سے دیکھتے ہیں۔ اگر آپ اس معاملے کو اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھ رہے ہیں تو اس کا واضح جواب یہ ہے کہ چونکہ بی این پی کے پاس قومی اسمبلی کی صرف چار نشستیں ہیں، اس کا پی ٹی آئی کی مخلوط حکومت پر کوئی بڑا اثر نہیں پڑے گا۔ البتہ یہ فیصلہ بلوچ سیاست اور تاریخ کے اعتبار سے کافی اہم ہے۔ اس کی بازگشت کئی سالوں تک سنائے دے گی۔
اس سے بلوچ قوم پرستوں کی اس قیادت کو ایک بار پھر دھچکہ لگا ہے جس نے ماضی میں بھی کئی بار مرکز کے ساتھ معاملات کو بہتر بنانے اور اعتماد سازی کی فضا قائم کرنے کی کوشش کی۔ اس کےعوض خود انہیں اپنے ہی صوبے میں سخت گیر موقف رکھنے والے قوم پرستوں کے طنز اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ نے انہیں غدار قرار دیا تو کچھ نے ان پر قومی مفادات پر سودا بازی کا الزام لیکن اس کے باوجود بلوچ سیاستدانوں کے اس طبقے نے ہر بار یہ امید لگائی کہ شاید اسلام آباد میں کوئی ان کے موقف کو سمجھے اور بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کی لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔
مینگل صاحب حکومت چھوڑ رہے ہیں لیکن اسمبلی نہیں لیکن پی ٹی آئی کی بے رخی کا فائدہ بلوچ علیحدگی پسند بیانیے ہی کو ہوگا جو کئی سالوں سے سردار مینگل اور (سابق وزیراعلیٰ) ڈاکٹر مالک کی سیاست پر شرط لگاتے آرہے ہیں کہ انہیں اسلام آباد سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ اسلام ٓاباد ان قوم پرستوں کو محض اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر کے چھوڑ دے گا۔ یہ صرف ایک خدشہ نہیں ہے بلکہ ہم اس کی مثال ماضی میں بھی دیکھ چکے ہیں۔ 2006 میں نواب بگٹی کی ہلاکت کے خلاف جب سردار مینگل کی جماعت نے احتجاجاً قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ سے استعفیٰ کا اعلان کیا تو اس کے بعد بلوچ قوم پرست حلقوں میں پارلیمانی سیاست سے مایوسی خطرناک حد تک پہنچ گئی۔ مسلح تنظیمیوں کا بیانیہ اس حد تک غالب اور مقبول ہوگیا کہ ان جماعتوں کو عوامی رائے عامہ کے پیش نظر 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کرنا پڑا۔
اس تجربے کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ فیصلے کرنا مینگل صاحب کے ہاتھ میں ہے لیکن ان کے جو اثرات علاقے کی سیاست اور خاص کر نئی نسل پر مرتب ہوتے ہیں وہ پھر ان کے کنٹرول سے باہر ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مینگل صاحب کے والد اور بلوچستان کے پہلے وزیراعلیٰ سردار عطا اللہ مینگل نے اپنی حکومت کی برطرفی کے باوجود اگست 1973 میں پنجاب میں ایک لاکھ کے مجمعے کے سامنے کہا تھا کہ ’اگر خدانخواستہ پاکستان کو کچھ ہوا تو ہم بلوچستان کا نام پاکستان رکھ دیں گے۔‘
اسی طرح نواب بگٹی نے اسلام آباد سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی جب کہ ایک اور بلوچ رہنما غوث بخش بزنجو جنہوں نے 1947 میں ریاستِ قلات کی پاکستان کے ساتھ الحاق کی شدید مخالفت کی تھی، نے زندگی کے آخری دنوں میں اپنی سیاست جماعت کا نام پاکستان نیشنل پارٹی تک رکھا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچ قیادت کی بارہا کوششوں کے باوجود مرکز نے ان کی گرمجوشی کا جواب سردمہری سے دیا۔ 1959 میں اگر بلوچ جنگجو نواب نوروز خان کو قرآن پر حلف لینے کے باوجود غیر مسلح کر کے دھوکہ دیا گیا تو پتہ نہیں اختر مینگل کیوں اس خوش فہمی میں تھے کہ پی ٹی آئی ان کے ساتھ کیے گئے کاغذی معاہدے کی پاس داری کرے گی۔
بلوچ سپرنگ
بی این پی نے پی ٹی آئی سے راستے ایک ایسے وقت میں الگ کیے ہیں جب بلوچستان بھر میں ایک دہائی میں ہونے والے شدید ترین مظاہرے دیکھنے میں آرہے ہیں۔ یہ احتجاج مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کے حمایت یافتہ ڈیتھ سکواڈز کے خلاف ہو رہے ہیں۔ بلوچستان میں ایک ہی مہینے میں دو ایسے دلخراش واقعے پیش آئے ہیں کہ ڈکیتی کے واقعات میں ڈاکوؤں نے خواتین کو ان ہی کے گھروں میں فائرنگ کرکے ہلاک کیا۔
ان واقعات کے خلاف صوبے بھر میں لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اگرچہ ان مظاہروں میں سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں لیکن اتنے سارے لوگوں کو منظم کرنے کا سہرا اس بار سیاسی جماعتوں سے زیادہ صوبے کی سول سوسائٹی کے سر جاتا ہے۔ ان مظاہروں میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو یا تو غیر سیاسی ہیں یا عموماً سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیتے۔
اس کے باوجود یہ افراد ان مظاہروں میں اس لیے شریک ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال کبھی اتنی خراب ہوتے نہیں دیکھی ہے کہ ڈاکو بے باکی سے گھروں میں داخل ہو کر خواتین تک کو نشانہ بنائیں۔ علاوہ ازیں، عوام اس لیے بھی سراپا احتجاج ہیں کہ ان جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کا الزام صوبائی وزرا اور اراکین اسمبلی پر لگایا جارہا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ سردار مینگل حکومت چھوڑنے کے بعد بلوچستان میں پائے جانے والے اس سیاسی اضطراب اور عوامی اُبھار کا کیسے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کیا وہ اسے ایک حکومت مخالف عوامی تحریک کی شکل دے سکتے ہیں؟ دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ جو قوتیں بلوچستان کو کنٹرول کرتی ہیں وہ سول سوسائٹی کے مظاہروں کو تو کسی حد تک برداشت کرتی ہیں لیکن جب سیاسی جماعتیں ان معاملات میں کود پڑتی ہیں، جلسے جلوس ہوتے ہیں اور لانگ مارچز کی دھمکی دی جاتی ہے تو پھر یکدم ان کا بھی لب و لہجہ اور رویہ بدل جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اگر اختر مینگل موجودہ صورت حال میں اگر مظاہرین کی قیادت کرتے ہیں تو اس سے اس عوامی تحریک کو تقویت یا تنزلی ملےگی کیونکہ کئی لوگ ان مظاہروں میں اس وقت تک حصہ لیتے رہیں گے جب تک ان پر کسی ایک سیاسی جماعت، رہنما یا ایجنڈے کا لیبل نہیں ہوتا۔ جب سیاست دان ان میں شامل ہو جاتے ہیں، سیاسی تقریریں ہوتی ہیں، اسلام آباد کو للکارنا شروع ہوتا ہے، ایک مخصوص ادارے کے سیاسی کردار پر سوال اٹھائے جاتے ہیں تو پھر لوگ بھی پیچھے ہٹنا شروع ہو جاتے ہیں کیونکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ اس کے فوری بعد سیاسی کارکنان کے لاپتہ ہونے میں تیزی آ جاتی ہے۔
سب ناراض
اگر دیکھا جائے تو بی این پی کے فیصلے کو ملک کے تمام اخبارات نے صفحہ اول کی شہ سرخی بنایا ہے لیکن بلوچستان میں پائی جانے والی بےچینی کے حوالے سے اصل اور قابل توجہ خبر یہ ہے کہ صوبے کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)، جسے اسٹیبلشمنٹ نواز کہا جاتا ہے، بھی آج کل اسلام آباد سے اتنی ہی ناراض ہے جتنا بی این پی اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتیں۔
حال ہی میں وزیر اعلیٰ جام کمال خان اور صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے (جن کا تعلق باپ سے ہے) پلاننگ کوآرڈی نیشن کمیٹی کی سالانہ میٹنگ سے اس لیے احتجاجاً واک آؤٹ کیا کہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کی تیاری میں ان کے ساتھ مشورہ نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی بقول ان کے پی ٹی آئی نے انہیں اس سلسلے میں اعتماد میں لیا تھا۔
جام صاحب نے احتجاجاً کہا: ’ہم آپ کے اتحادی ہیں۔ آپ (پی ٹی آئی کو) ہمیں اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔ ہم بلوچستان کے لوگوں کو جواب دہ ہیں۔‘ صوبائی وزیر خزانہ نے وفاقی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ بلوچستان کو ترقی دینے میں سنجیدہ نہیں ہے۔
اسی طرح باپ سے تعلق رکھنے والے ایک اور سینیٹر منظور کاکڑ نے حال ہی میں سینیٹ کے فلور پر جو دھواں دھار تقریر کی اس سے تو ایک لمحے کے لیے لگا کہ ان کا تعلق حکمران جماعت سے نہیں بلکہ حزب اختلاف سے ہے۔ اپنی پرجوش تقریر میں انہوں نے بھی بلوچستان کے بجٹ میں کٹوتی پر اسلام آباد پر شدید تنقید کی۔
انہوں نے کہا: ’ہم آپ (اسلام آباد) سے خیرات یا بھیک نہیں بلکہ اپنے حقوق مانگتے ہیں۔ بلوچستان میں بارش ہونے کے بعد انسان اور جانور ایک ہی گڑھے سے پانی پیتے ہیں۔ کیا وہ انسان نہیں ہیں؟ کیا بلوچستان میں انسان نہیں رہتے؟‘
ایک بات واضح ہے کہ اس وقت صرف سردار اختر مینگل پی ٹی آئی کی بلوچستان پالیسی (یا اس کی عدم موجودگی) سے ناخوش نہیں ہیں بلکہ یہ احساس کہ اسلام آباد بلوچستان کو یکسر نظر انداز کر رہا ہے خود صوبے کی حکمران جماعت میں بھی پایا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ملک میں اس وقت کرونا (کورونا) کا بحران سنگین ہے اور یہ معاملہ وزیر اعظم کی توجہ کا متقاضی ہے لیکن ایسا نہ ہو کہ جب وزیراعظم کو بلوچستان کی یاد آئے تو اس وقت وہاں ان سے ملنے اور مذاکرات کرنے والا کوئی باقی نہ رہے۔