سفیروں کی مختلف ممالک میں تعیناتی کے بارے میں خبریں پچھلے کچھ دنوں سے میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ ان خبروں کے شائع ہونے کے چند دن بعد بھی وزارت خارجہ نے ان کی تردید نہیں کی تو اس لیے ان کی صداقت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔
ان تعیناتیوں میں تین انتہائی اہم سفارت خانے کابل، بیجنگ اور لندن بھی شامل ہیں۔ بیجنگ اور لندن جیسی اہمیت کے سفارت خانوں میں تبدیلی بلترتیب صرف نو اور 18 ماہ کے بعد ہو رہی ہے۔ عموما سفیروں کی تقرری کم ازکم تین سالوں کے لیے ہوتی ہے اور کچھ حساس سفارت خانوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر یہ عرصہ تین سالوں سے طویل بھی ہو سکتا ہے۔
عاقل ندیم کا یہ کالم آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں:
بیجنگ میں آخری سفیر وہاں پر تقریبا ساڑھے چھ سال تک تعینات رہے اور انہوں نے سی پیک جیسے تاریخ ساز منصوبے کو کامیابی سے آگے بڑھایا۔ (چاہیے تو یہ تھا کہ اتنے تجربہ کار سفیر کو سی پیک اتھارٹی کا چیئرمین بنا دیا جاتا لیکن ان کی جگہ فال ایک ریٹائرڈ جنرل کے نام نکلی جن کا سی پیک سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ بہرحال یہ اس مضمون کا موضوع نہیں ہے)۔
کم از کم تین سال کی تعیناتی کی وجہ سفیر کو مناسب وقت دینا ہوتا ہے کہ وہ میزبان ملک کے نظام کو صحیح طور پر سمجھ سکے اور وہاں کی قیادت سے اعلی سطح پر اپنے ملک کی بہتری کے لیے اچھے تعلقات قائم کر سکے۔ سفیر کی تھوڑے عرصے بعد تبدیلی میزبان ملک میں کبھی بھی پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھی جاتی کیونکہ یہ تبدیلی میزبان ملک کی نظر میں ان کی اہمیت کم کرنے کے مترادف سمجھی جاتی ہے۔
کسی سفیر کو عموما تین سال سے پہلے اسی وقت بلایا جاتا ہے جب ان کی کارکردگی میں مسائل ہوں یا وہ تین سال پورے کیے بغیر ریٹائر ہو جائیں۔ عام طور پر اہم اور حساس مقامات پر تعیناتی کرتے ہوئے ان تمام باریکیوں پر غور کیا جاتا ہے لیکن لگتا ہے کہ بیجنگ اور لندن میں پچھلی تعیناتیاں کرتے ہوئے ان اصولوں کو سرسری توجہ دی گی یا جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہوئے فیصلے کیے گئے۔
کیونکہ لندن اور بیجنگ میں پچھلی تعیناتیاں کرتے ہوئے وزیر خارجہ کو معلوم تھا کہ متعین کیے جانے والے سفرا تقریبا نو سے 18 ماہ کے اندر ریٹائر ہو جائیں گے اور حکومت کی پالیسی کے مطابق ان افسروں کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں کی جاسکے گی تو انہیں ایسے سینیئر اورباصلاحیت افسروں کی تلاش کرنی چاہیے تھی جن کی مدت ملازمت ابھی باقی تھی۔
ان واضح اصولوں کی خلاف ورزی اور انتظامی کوتاہیوں کی وجہ سے 2018 میں ہمارے کوالالمپور میں سفیر جنہیں وہاں پر صرف 18 مہینے ہوئے تھے ان کا وہاں سے تبادلہ کر کے انہیں لندن بھیج دیا گیا جبکہ یہ معلوم تھا کہ وہ ڈیڑھ سال بعد ریٹائر ہو جائیں گے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ انہیں کوالالمپور جہاں پر وہ کامیابی سے کام کر رہے تھے وہیں اپنا وقت مکمل کرنے دیا جاتا اور کسی ایسے مناسب افسر کی تلاش کی جاتی جو لندن میں اپنی طے شدہ مدت ملازمت مکمل کر پاتے۔
اسی طرح بیجنگ کے لیے جو کہ ہمارے لیے انتہائی اہم سفارت خانہ ہے، برسلز سے سفیر صاحبہ کو جہاں پر وہ تقریبا پانچ سالوں سے کامیابی سے اپنی خدمات سرانجام دے رہی تھیں ان کا صرف نو ماہ کے لیے بیجنگ جیسی حساس جگہ پر تبادلہ کر دیا گیا۔
مناسب انتظامی فیصلہ تو یہ ہوتا کے انہیں برسلز میں اپنی مدت ملازمت پوری کرنے دی جاتی اور بیجنگ کے لیے لیے اس علاقے کی سمجھ رکھنے والے، زبان جانے والے یا کسی سینیئر آفیسر کی تعیناتی کی جاتی جن کی مدت ملازمت میں کم از کم تین سال کا وقت ہوتا۔ لیکن وزیر خارجہ نے اپنی روایتی پھرتی یا سفارشوں کا خیال رکھتے ہوئے ان اہم نکات کو درخود اعتنا نہیں سمجھا۔
اب چلتے ہیں کابل۔ افغان دارالحکومت میں ہمارے موجودہ سفیر انتہائی مشکل حالات میں جان فشانی اور محنت سے کام کر رہے ہیں اور اپنی مدت ملازمت میں انہوں نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری لانے کی انتھک کوششیں کیں۔ وہ اس وقت 22 گریڈ کے سینیئر افسر ہیں۔ انہیں اس کامیابی سے ایک انتہائی مشکل مقام پر اپنی مدت ملازمت مکمل کرنے کے بعد کوئی اہم ذمہ داری سونپی جانی چاہیے تھی مگر انہیں وزیر خارجہ نے کمبوڈیا جیسے غیر اہم سفارت خانے میں تعینات کرنے کی تجویز دی۔
اب اطلاعات ہیں کہ وزیر اعظم نے اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے اور سفیر کو پاکستان واپس آنے کے لیے کہا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وزیر خارجہ ان سفارشات کو طے کرتے ہوئے یا تو وزارت خارجہ کہ انتظامی سربراہ سے مشورہ نہیں کرتے یا شاہانہ انداز میں جو انہیں پسند ہیں انہیں نوازتے ہیں اور جو ناپسند ہیں ان کی سنیارٹی کا خیال رکھے بغیر انہیں کھڈے لائن ذمہ داریاں دیتے ہیں۔
اسی طرح ہمارے اٹلی میں موجودہ سفیر جو صرف ایک ماہ قبل روم میں تعینات کیے گئے اس وقت وزارت خارجہ کے سینیئر ترین افسر ہیں اور بہت ہوشیاری سے انہیں حالیہ تبدیلیوں سے صرف کچھ ماہ پہلے روم بھیجا گیا تاکہ انہیں بیجنگ اور لندن جیسے اہم مقامات میں تعیناتی کے منصوبے سے علیحدہ کر دیا جائے۔ یقینا روم کی بیجنگ اور لندن جیسی سفارتی اور معاشی اہمیت تو نہیں۔
روم میں ہمارے سفیر انتہائی قابل افسر ہیں۔ وہ امریکہ کی مشہور یونیورسٹیوں یوپین اور جان ہاپکنز کے تعلیم یافتہ ہیں اور امریکہ کی شہرہ آفاق جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں کچھ عرصہ پڑھایا بھی ہے۔ وہ وزارت خارجہ میں تقریبا سات سال تک یورپ ڈویژن کے ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر جنرل بھی رہے جس میں وہ برطانوی معاملات کو بھی دیکھتے رہے۔ ان کی ریٹائرمنٹ میں ابھی بھی تین سال باقی ہیں لیکن نہ صرف انہیں پچھلی دفعہ بھی لندن اور بیجنگ کے لیے نظر انداز کیا گیا جب وہ برلن میں تین سال مکمل کر چکے تھے اور نہ ہی اس قابل افسر کو اس دفعہ ان اہم سفارت خانوں میں تعیناتی کے لیے غور کیا گیا۔
ان کی روم میں پھرتی اور پراسرار حالات میں تعیناتی صاف اشارہ کرتی ہے کہ وزیر خارجہ ان کے بارے میں شاید تحفظات رکھتے ہیں یا ان کے قریبی ساتھی انہیں فارن سروس کے بہترین افسر کے بارے میں جان بوجھ کر غلط معلومات فراہم کر رہے ہیں اور اسی وجہ سے انہیں اہم ذمہ داریوں سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ کیا اس طرح کے غیر پیشہ ورانہ رویہ سے ہم اپنے سفارتی اہداف حاصل کر سکتے ہیں؟
رولز آف بزنس کے تحت یہ ساری تعیناتیاں وزارت خارجہ کے سیکریٹری کو کرنی چاہیے لیکن ذرائع کے مطابق وزیر خارجہ نے ہر قسم کی چھوٹی یا بڑی تعیناتی اپنے ہاتھوں میں رکھی ہوئی ہے۔ انہوں نے روایات سے ہٹتے ہوئے پچھلے سال کچھ سفیروں کی تعیناتی کا اعلان باقاعدہ خود ایک ویڈیو پیغام میں کیا تھا۔ ان کے یہ انتظامی اقدامات نہ صرف وزارت خارجہ کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ وزیر اعظم کے خیالات سے بھی متصادم ہے جن میں وہ ہر وقت اداروں کی مضبوطی کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر خارجہ کی اس مبینہ اقربا پروری کی پالیسی سے قابل افسران کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے اور یہ وزارت خارجہ میں جونیئر افسران پر بھی منفی اثرات چھوڑ رہی ہے۔ ان کے قریبی افسران تو وزارت خارجہ میں ’ضروری وقت‘ پورے کیے بغیر باہر جا سکتے ہیں جبکہ دوسرے افسران کو ’ضروری وقت‘ پورا کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔
وزیرخارجہ کو انتظامی معاملات میں اپنی جاگیردارانہ سوچ کو خیرباد کہنا چاہیے اور وزارت خارجہ کےانتظامی معاملات سے اپنے آپ کو علیحدہ کرتے ہوئے خارجہ پالیسی کے میدان پر توجہ دینی چاہیے۔ انہیں وزارت خارجہ کے لیے وہ مقام واپس حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو کچھ اداروں نے کافی عرصے سے اپنے دائرہ اختیار میں شامل کر لیا ہے۔
اگر انہیں انتظامی معاملات میں دلچسپی ہے تو ان کی کوشش ہونی چاہیے کہ فارن سروس پاکستان کی اعلی درجے کی سروس کیسے ہو جائے۔ وزارت خارجہ میں اہلکاروں کی سہولیات میں اضافہ کیسے کیا جائے اور کیسے انتظامی معاملات میں میرٹ کی بالادستی قائم کی جائے۔
وزارت خارجہ میں ایسے حالات کیسے پیدا کیے جائیں کہ ملک کے بہترین نوجوان دماغ اس سروس میں شامل ہونا پسند کریں۔ اگر وہ یہ مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ان کی بہتر اور یاد گار میراث ہو گی۔