سندھ اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی کلثوم چانڈیو نے اپوزیشن گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کی رکن اسمبلی نصرت سحر عباسی کو باگڑی پکارتے ہوئے انہیں اسمبلی سے باہر نکلنے کا کہا، جس پر صوبے بھر میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔
بلاول بھٹو سے کلثوم چانڈیو کے خلاف سخت ایکشن لینے کے ساتھ ساتھ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ کلثوم چانڈیو باگڑی کیمونٹی سے معافی مانگیں۔
راجکمار، ذوالفقار ہالیپوٹو سمیت کئی لوگوں نے اس واقعے پر احتجاج کرتے ہوئے اپنی فیس بک پوسٹ میں لکھا کہ ’میں باگڑی ہوں‘۔
غلام رسول چانڈیو نے اپنی فیس بک پوسٹ میں لکھا کہ ’باگڑی، قدیم باشندوں کی دراوڑ نسل سے ہیں جنھوں نے سندھ کی تہذیب کی بنیاد رکھی، میں تو باگڑیوں کی جُوتی جیسا بھی نہیں ہوں۔‘
کراچی میں یونیورسٹی کے طالب علم ارجن باگڑی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں فخر ہے کہ ہم باگڑی ہیں۔ ہم موئن جو داڑو کے زمانے سے یہاں آباد ہیں۔ ہم اس دھرتی کے اصل وارث ہیں۔‘
’آپ اندازہ کریں اگر اسمبلی جیسے فورم پر ہماری ذات کے نام کی گالی دی جاتی ہے تو عام زندگی میں ہمارے ساتھ کیا کیا جاتا ہوگا۔‘
ارجن باگڑی نے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سے مطالبہ کیا کہ کلثوم چانڈیو کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔
بعد میں سوشل میڈیا پر جاری ایک ویڈیو میں پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی کلثوم چانڈیو نے باگڑی برادری سے معافی مانگ لی۔
اسمبلی فلور پر باگڑی ذات کے نام پر ’گالی‘ دینے والا واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ سندھی زبان کے نجی ٹی وی چینل کی ٹی این نیوز پر چلنے والے ایک ڈرامہ سیریز ’ماما لالو‘ میں بھی باگڑی زبان کو لے کر اس برادری کی تضحیک کی گئی۔
باگڑی کون ہیں؟
سندھ میں صدیوں سے مقیم باگڑی ہندومت کے ماننے والے ہیں۔
باگڑی سندھ کے سودیشی ہندوؤں کی کئی ذاتوں بشمول کوچڑے، جوگی، شکاری، کبوترے، بھیل، کولھی، میگھواڑ یا مینگھواڑ، لوہار یا کاریا، واگھڑے، راوڑے، گواریا، اوڈ، سامی، گُرگلا، ریباری، جنڈاوڑا، کوکڑی، ہڈوال، مچھلا، اور کئی دیگر ذاتوں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔
صدیوں پرانے ہندومت کے نام نہاد ذات پات کے نظام میں ان ذاتوں کو نچلی ذات، اچھوت یا دلت کہا جاتا ہے جسے حکومتِ پاکستان بھی شیڈول کاسٹ کا نام دے کر سرکاری طور پر دلت مانتی ہے۔
سندھ میں کراچی سے کشمور تک نیشنل ہائی وے یعنی قومی شاہراہ کے دونوں اطراف کے اضلاع بشمول کراچی، حیدرآباد، جامشورو، مٹیاری، نوشہروفیروز، نواب شاہ، خیرپور میرس، لاڑکانہ، سکھر، گھوٹکی، جیکب آباد، کندھ کوٹ، شکارپور اور دادو میں باگڑی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔
جبکہ زیریں یا جنوبی سندھ کے میرپور خاص، بدین، تھرپارکر، سانگھڑ، عمرکوٹ اور ٹھٹھہ میں باگڑیوں کی آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔
کراچی میں مختلف علاقوں میں باگڑیوں کی بڑی بڑی بستیاں موجود ہیں اور یہ لوگ اکثر موسمی پھل گدھا گاڑیوں پر رکھ کر بیچتے نظر آتے ہیں۔
باگڑی خود کو راجپوت نسل کا بتاتے ہیں۔
خاندانی پیشے کے لحاظ سے باگڑی باغبانی اور سبزیوں کی کاشت کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹاؤن کمیٹی مٹیاری میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ سے کونسلر منتخب ہونے والے ویساکھی مل باگڑی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’باگڑی پھلوں اور سبزیوں کی کاشت کے ماہر ہیں اور یہ مہارت ان کے خون میں شامل ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’20 یا 30 سال پہلے تک سندھ میں کہیں بھی کوئی بھی باغ، وہ چاہے کسی کا بھی ہو، اس کا ٹھیکا باگڑی ہی لیتا تھا، چاہے وہ ٹھیکا ایک کروڑ کا کیوں نہ ہو مگر اب تو باغ کا ٹھیکا کوئی اور ٹھیکیدار لیتا ہے۔‘
کیلے کی فصل کسان کے لیے سخت محنت والی فصل سمجھی جاتی ہے، مگر باگڑی کیلے کے کاشت کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، جہاں باگڑی مردوں کے ساتھ خواتیں بھی کام کرتی ہیں۔
باگڑی برادری کے بزرگوں کے مطابق بھارتی پنجاب میں باگڑ نام کا ایک علاقہ بھی ہے، جبکہ بھارتی ریاست راجستھان میں باگڑیوں کی بڑی تعداد آباد ہے جو سندھ کے باگڑیوں سے مختف زبان بولتی ہے۔
اس کے علاوہ پاکستانی پنجاب کے بہاولپور اور بہاولنگر اضلاع میں باگڑی بستے ہیں، مگر وہ مسلمان باگڑی ہیں اور سندھ کے باگڑیوں سے مختف زبان بولتے ہیں۔
باگڑی برادری میں خاندان سطح پر مادرانہ نسب کا نظام رائج ہے، جس کے تحت کیوں کہ باگڑی عورت بھی مرد کے ساتھ ساتھ کام کرتی ہے تو عورت خاندان کی سربراہ سمجھی جاتی ہے، جو پیسوں کا حساب کتاب رکھنے کے ساتھ گھر کے اہم فیصلے بھی کرتی ہے۔
جبکہ برادری سطح پر پنچائتی نظام رائج ہے جس میں برادری کا پنچ اہم فیصلے کرتا ہے۔
ویساکھی مل باگڑی نے دعویٰ کیا کہ باگڑی برادری میں جرم نہ ہونے کے برابر ہے۔
’قتل تو دور کی بات، کسی باگڑی فرد نے آج تک چوری جیسا جرم بھی نہیں کیا ہے۔ باگڑی ایک پرامن برادری ہے جبکہ باگڑی کو باوری بھی کہا جاتا ہے۔‘
گزشتہ کچھ سالوں سے باگڑی برادری نے اپنے بچوں کو تعلیم بھی دینا شروع کی ہے اور کئی باگڑی نوجوان اعلیٰ تعلم حاصل کرکے اہم عہدوں پر فائز ہوچکے ہیں۔ جبکہ لڑکیوں کے تبدیلی مذہب کے ڈر سے بچیوں کو پرائمری تعلیم مکمل ہونے پر انھیں گھر بٹھا دیا جاتا ہے۔
پچھلے کچھ عرصے کے دوران سندھ کی تاریخ میں پہلی بار چند باگڑی خاندان بھارت منتقل ہوچکے ہیں۔
ویساکھی مل باگڑی بتاتی ہیں کہ ’چند خاندان بھارت گئے، مگر بعد میں ہم نے اس بات کا سختی سے نوٹس لیا، اب کوئی بھی باگڑی بھارت نہیں جاتا۔ سندھ ہماری ماں جیسا ہے اور ہمارا جینا مرنا سندھ کے ساتھ ہے۔‘
سندھ کے ودیشی ہندو ذاتوں کی نسبت باگڑیوں میں اگنی سنسکار یا انتم سنسکار کا رواج ہے۔ جس کے تحت وہ اپنے مرنے والے پیاروں کی جتا یعنی لاش کو جلاتے ہیں جبکہ چھوٹے بچوں اور غیر شادی شدہ لڑکوں اور لڑکیوں کو دفنایا جاتا ہے۔
باگڑیوں کی شادی بیاہ کی تقریبات میں بہت بڑی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں جبکہ تقریبات میں ’آیو لال، جھولے لال‘ کا نعرہ عام ہے۔
باگڑی برادری کے اندر مختلف ذاتیں ہیں جن میں کوری، ڈابھی، وڈھیارو، چوہان، دم دارو، دھاندھل، سرونکی، پنمار شامل ہیں اور کوئی بھی فرد اپنی ہی ذات میں شادی نہیں کرسکتا۔
2017 میں نجی چینل، ٹی وی ون نے باگڑیوں پر ڈرامہ سیریل ’سیتا باگڑی‘بنایا جس میں ثروت گیلانی کی جاندار اداکاری نے ناظرین کو داد دینے پر مجبور کردیا۔
اس ڈرامہ سیریز میں ثروت گیلانی نے سیتا کا کردار ادا کیا جو لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سرگرم رہتی ہیں لیکن اس ڈرامے کا پلاٹ صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ سیتا کی رومانوی کہانی پر بھی مبنی تھا۔
سندھ میں باگڑیوں کی بڑی آبادی ہونے کے باجود ان کی کسی بھی اسمبلی میں نمائندگی نہیں ہے۔
ویساکھی مل باگڑی کے مطابق کراچی سے کشمور تک ہر ضلع کے ہر حلقے میں باگڑی برادری کے دس سے 12 ہزار ووٹ ہوتے ہیں جو وہاں الیکشن لڑنے والے مسلمان امیدوار کو دیے جاتے ہیں، مگر ووٹر ہونے کے باجود کوئی بھی امیدوار اسمبلی پہنچ کر باگڑی برادری کی مدد نہیں کرتا۔
’ہمیں آج بھی کھانا اور پانی الگ برتن میں دیا جاتا ہے، ہم کسی ہوٹل یا کھانے پینے کی دکان پر کام نہیں کرسکتے۔ مگر کسی بھی رکن اسمبلی نے یہ تفریق مٹانے کی کوشش نہیں کی۔ کل جب سندھ اسمبلی میں پی پی پی کی خاتون رکن ہماری برادری کو گالی دے رہی تھیں، تب وہاں موجود ہندو ممبران نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔‘