ماضی قریب میں ذرا جھانک کر دیکھیں تو ہماری عمر کے اُس وقت کے نوجوانوں کے لیے لابرئیری ایک بہترین وقت گزاری کا ذریعہ ہوتی تھی۔
ہر گلی محلے میں کہیں نہ کہیں آپ کو ایک چھوٹی سی دکان میں کتابوں کا یہ بڑا خزانہ مل جاتا۔ جہاں آپ دو سے پانچ روپے کرایہ ادا کرکے اپنے من پسند ناول اور جریدے کے ’ایک دن کے حاکم‘ بن جاتے۔
اتفاق سے جس وقت ہمارے اندر مطالعے کی شمع روشن ہوئی تو وہ دور اشتیاق احمد کے ناولوں کا تھا۔ انسپکٹر جمشید اور کامران اور پھر شوکی سیریز کے ذہین اور غیر معمولی کردار ہوتے، محمود‘ فاروق فرزانہ یا پھر آفتاب، فرحت یاآصف ہوں، ان سب کے کارنامے پڑھ پڑھ کر ہم بھی ’چھوٹے موٹے جاسوس‘ تو بن ہی گئے تھے۔
اچھی طرح یاد ہے کہ محلے میں کہیں کوئی چوری چکار ی کی واردات ہوجاتی تو ہمارے جیسے جاسوسوں کا گروپ اپنی تئیں اس کی تحقیقات کرتا، اندھیرے میں تیر چلائے جاتے‘ لیکن ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا۔ کیونکہ کہانی اور حقیقت میں بہت فرق ہوتا ہے۔
خیر جناب عمران سیریز میں چونکہ ’بالغان‘ کے لیے کچھ مواد ہوتا‘ اسی لیے ہم جیسے ’بچوں کی پہنچ سے دور‘ رکھا جاتا۔کیا وضع دار اور مہذبانہ دور تھا کہ لابرئیری اور بک اسٹال والا تک اسے کم عمر بچوں کے لیے ’شجرممنوع‘ سمجھتے ہوئے مجال ہے جو جو دے دیتے ہوں۔
لڑکپن میں ہم نے دو علاقوں میں ہجرت کی اور خوش قسمتی ہی کہیے کہ وہاں جا کر ہم کسی نہ کسی طرح ’لابرئیری‘ کی کھوج میں انسپکٹر جمشید کے مجرم تلاش کرنے کی طرح کامیاب ہو ہی گئے۔
مشاہدے میں تو یہ بھی آیا کہ جب بھی ان محلوں میں کوئی ’نووارد‘ آتا تو اس کا بھی پہلا سوال یہی ہوتا کہ یہاں لابرئیری کہاں ہے؟
لابرئیری سے لائی گئی ان کتابوں، ناولوں اور جرائد کے پڑھنے کا اپنا ہی الگ نشہ یا خمار ہوتا۔ کسی نئی نویلی دلہن کی طرح ان کا خیال رکھا جاتا اور ایک ایک صفحے کو بڑے سنبھال سنبھال کر پلٹا جاتا، کہیں کوئی بدنما نشان یا دھبہ نہیں لگے، اس پر تو خاص توجہ دی جاتی۔ واپسی پر لابرئیری مالکان بھی ’کسٹم حکام‘ کی طرح ایک ایک صفحے کا اچھی طرح جائزہ لیتے۔ کہیں کوئی کاٹ چھانٹ ہوتی تو زرضمانت کے طور پر جمع رقم سے اسے منہا کرلیا جاتا۔
عام طور پر لابرئیری کی ممبر شپ حاصل کی جاتی۔ جس کے لیے معمولی سی رقم اس لیے ضمانت کے طور پر جمع کرائی جاتی کہ کہیں کوئی رسالہ یا ناول لے کر نو دو گیارہ نہ ہوجائے۔ہمارے ایک دوست ایسے بھی تھے جن کی عادت تھی کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے ادھار کی طرح کتاب واپس نہیں کرنی۔کئی لابرئیریز پر ان کی انٹری بند تھی۔
اچھی خاصی تعداد میں کتابیں ان کے قبضے میں تھیں تو یار دوست ان پر یہ طنز مارتے کہ وہ کیوں نہیں گھر کے باہر 'اپنی لابرئیری' کابورڈ لگوا دیتے۔
زمانہ طالب علمی میں ہمارے جیسے مطالعے کے ’دھتی‘ پورے ہفتے اسکول میں لابرئیری کے لیے مختص پریڈ کا انتظارکرتے۔ کیونکہ یہی وہ لمحات ہوتے جب اسکول کے کتب خزانے سے علم کے انمول اور نادر موتی ہمیں مل جاتے۔ انٹر نیٹ، اسمارٹ فون اور چینلز کی بہتات کا تو دور نہیں تھا، اسی لیے کسی بھی قسم کی معلومات، تقریر، مضمون یا حوالے کے لیے یہ سمجھیں لابریئری ’گوگل سرچ انجن‘ سے زیادہ مفید اور کارآمد تصور کی جاتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گو کہ فی الذمانہ بھی شہر قائد میں کئی سرکاری اور نجی لابئرئیریز قائم ہیں لیکن ان کی خستہ حالت پر بس رحم ہی آتا ہے۔بالخصوص سرکاری کتب خانوں میں کتب اور رسائل کی عدم دستیابی کا غم، علم کی پیاس بجھانے والوں کو سہنا پڑرہا ہے۔ تعلیمی اداروں میں لابرئیریز تو ہیں لیکن ان سے استفادہ کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر ہی ملیں گے۔ قصور نت نئی ٹیکنالوجی کا بھی قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ جب آپ کی ’فنگر ٹپس‘ پر سب کچھ ہو تو بھلا کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ لابرئیری جا کر مطلوبہ کتاب یا اخبار کی تلاش میں گھنٹوں کھپائے، آن لائن بک دستیاب ہیں۔
تکیہ کیا جارہا ہے تو انٹر نیٹ پر۔۔ جہاں سے حاصل غیر مصدقہ اوربے بنیاد معلومات عام ہونے لگی ہیں بدقسمتی یہ ہے کہ ذرا سی تحقیق کرنے پر کوئی آمادہ نہیں۔ سرکاری کتب خانوں کی کمی تو ہے لیکن جناب کہاں سرکار بہادر کے پاس وقت اور سرمایہ ہے جو اس پہلو پر غور کرے۔
دیار غیر میں تو لابرئیریز پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ بڑی بڑی عالی شان عمارتوں میں ہی نہیں کہیں کسی بس میں کسی گاڑی میں تو کہیں آٹو رکشا کے ذریعے گھر کی چوکھٹ پر کتابوں کا یہ کنواں خود چل کر پہنچ رہا ہے۔ اس تناظر میں ذرا جائزہ تو لیں ہمار ا، سوچیں تو ضرور کہ ہمارے یہاں یہ رحجان بھی کیوں واقعی میں ’یاد ماضی‘ بنتا جارہا ہے۔