کوئٹہ میں آن لائن کلاسز کے خلاف اور انٹرنیٹ بحالی کے لیے احتجاج کرنے والے طلبہ میں سے بڑی تعداد کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔
سٹوڈٹنس ایکشن کمیٹی کے رہنما مزمل خان کے مطابق احتجاج کرنے والے طلبہ میں سے 60 کو پولیس نے کوئٹہ پریس کلب کے قریب حراست میں لیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حراست میں لیے جانے والے ان طلبہ میں چار لڑکیاں بھی شامل ہیں۔
طلبہ کو حراست میں لیے جانے کی خبر سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر کئی صارفین کی جانب سے ان کی رہائی کے مطالبات سامنے آنے لگے اور ’ریلیز آل سٹوڈنٹس‘ ٹرینڈ بن گیا ہے۔
ماما قدیر بلوچ نامی ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک خاتون طالب علم کا ویڈیو پیغام بھی شیئر کیا گیا ہے جو بظاہر پولیس میں ریکارڈ کیا گیا ہے۔
اس ویڈیو میں خاتون طالب علم کہتی ہیں کہ ’جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ ہم گذشتہ ماہ سے آن لائن کلاسز کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ہم ایچ ای سی کو کہہ رہے ہیں کہ بلوچستان میں آن لائن کلاسز نہیں ہو سکتیں۔‘
وہ کہہ رہی ہیں کہ ’آج بھی وہی رویہ ہمارے ساتھ اپنایا گیا ہے جو ایک عرصے سے بلوچستان کے عوام کے ساتھ ہو رہا ہے۔‘
کوئٹہ میں آنلائن کلاسزکےخلاف احتجاج کرنےوالےبلوچ خواتین پرتشدد بعدازگرفتاری انتہائی شرمناک عمل ہےاور اسکی جتنی بھی مذمت کی جائےکم ہے۔
— Mama Qadeer Baloch (@QadeerMama) June 24, 2020
میں سول سوسائٹی سےکہتا ہوں کہ خواتین کی گرفتاری کےخلاف سڑکوں میں آجائیں اوربھر پھور احتجاج کریں۔
ریاست حقوق دینے کے بجائےلوگوں پر تشدد کررہا ہے۔ pic.twitter.com/O5Ml7QRCG2
’ہم پرامن احتجاج کر رہے تھے، پہلے ہمیں کہا گیا کہ پانچ منٹ انتظار کریںت آپ کو آگے جانے کی اجازت نہیں۔‘
انہوں نے سوال کیا کہ آئے دن ریلیاں اور احتجاج ہوتے ہیں ان کو اجازت کہاں سے ملتی ہے؟
ایک اور صارف محسن ابدالی نے چند تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا: ’طلبہ آن لائن کلاسز خلاف اور بلوچستان میں انٹرنیٹ تک رسائی کے لیے کئی ماہ سے احتجاج کر رہے ہیں مگر ان کو سننے کے بجائے ریاست جواب میں تشدد کر رہی ہے۔ یہ ناقابل قبول ہے اور قابل مذمت ہے۔‘
Students have been protesting for months against Online Classes and for Internet Access in Balochistan and all Over, but Instead of listening them and their Demands, the State is answering with Violence and Insanity. This is Unacceptable, highly Condemnable. #ReleaseAllStudents pic.twitter.com/EWiJYWvZps
— Mohsin Abdali (@MohsinAbdali4) June 24, 2020
واضح رہے کہ ملک بھر میں طلبہ کا انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کے باوجود یونیورسٹیوں کی جانب سے آن لائن کلاسوں کے انقعاد کے خلاف احتجاج جاری ہے جس میں لاہور کے طلبہ بھی شامل ہیں۔
ملک میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومت نے سکول کالجز بند کر کے انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن کلاسوں کا حکم دیا۔ تاہم مختلف یونیورسٹیوں اور کالجز کی جانب سے آن لائن کلاسیں دینے کا آغاز ہوتے ہی طلبہ کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سے انٹرنیٹ سہولت نہ ہونے پر طلبہ کا ردعمل سامنے آیا جس میں ان کلاسوں کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا، تاہم حکومت کی جانب سے طلبہ کے مسائل حل کرنے کی طرف توجہ نہ دی گئی۔
سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی کال پر مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے۔
منگل کو بھی لاہور میں پریس کلب کے سامنے احتجاج کرنے والے طلبہ کا کہنا ہے کہ ایک طرف بیشتر طلبہ انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے پر آن لائن کلاسیں نہیں لے پا رہے۔ تو دوسری جانب یونیورسٹیوں اور ہوسٹلوں کی فیسیں بھی باقائدگی سے ادا کرنا پڑ رہی ہیں۔