تاریخ شاہد ہے کہ جب بڑے بڑے ایوانوں میں کسی قوم کی شناخت یا کردار کو ختم کرنے کے منصوبے ترتیب دیے گئے تو جنگی جنون ابھارنے کے ساتھ ساتھ اس معاشرے میں شر پھیلانے کی بےشمار کوشش بھی کی گئیں۔
آبادی کو محض بارود سے ختم نہیں کیا جاتا بلکہ آبادی میں بدکاریاں پھیلا کر قوموں کی بیخ کنی بھی کی جاتی ہے۔ قوموں کو بچانے کے لیے انبیا اور اولیا ظاہر ہوتے تھے لیکن موجودہ دور میں صرف شیطانی قوتیں ہی نظر آتی ہیں۔
نعیمہ احمد مہجور کی یہ تحریر یہاں آپ سن بھی سکتے ہیں:
اللہ کا کرم ہے کہ مسلمانوں کو قرآن اور حدیث کی صورت میں ایک قیمتی سرمایہ ورثے میں ملا ہے جو زندگی کے ہر مرحلے میں ایک بہترین رہنما اور رہبر کے مانند ہیں لیکن پھر بھی مسلم معاشرہ بدکاریوں سے پوری طرح محفوظ نہیں رہا۔
مورخ رابرٹ تھاروپ لکھتے ہیں کہ کشمیر میں جب ڈوگرہ راج کے دوران مسلمانوں پر جسمانی مظالم ڈھائے جا رہے تھے وہیں ذہنی عذاب دینے کے اوچھے ہتھکنڈے بھی استعمال کیے جاتے تھے تاکہ وہ اخلاقی پستی میں سر اٹھانے کے قابل نہ رہ سکیں۔ ایک حربہ یہ تھا کہ عورتوں کے جسم فروشی کے اڈوں کو جائز ٹہرا کر کشمیری لڑکیوں کو دوردراز علاقوں میں فروخت کے لیے بھیجا جاتا تھا۔ اس طرح عام لوگوں کی توجہ معاشرتی مسائل میں الجھا کر سیاسی مسائل سے ہٹائی جاتی تھی اور لوگوں کو موج مستی کی محفلوں میں مشغول رکھنے کا یہ ایک طریقہ تھا۔
سری نگر میں رہاش پذیر محمد سبحان حجام کے نام سے ایک نائی نے بدکاری کے اس فعل کے خلاف مہم شروع کی جو بعد میں ایک تحریک کی شکل اختیار کرگئی لیکن ان کو مہاراجہ کی فوج کے عتاب سے گزرنا پڑا۔ لال چوک میں ان کی دکان تھی جہاں سے انہوں نے سماج کے مختلف طبقوں کو جمع کر کے اس بدعت کی جانب باخبر کیا۔
انہوں نے ہدایات نامے کے تحت لٹریچر کی اشاعت کی اور مقامی لوگوں کو معاشرے پر پڑنے والے منفی اثرات سے خبردار کیا۔ گوکہ ڈوگرہ مہاراجہ نے ہدایت نامے کو نظرانداز کر دیا تھا لیکن عوام میں ضرور اس سازش اور معاشرے میں پھیلی بدکاریوں کی جانب بیداری پیدا ہوئی۔ نجی طور پر بیشتر لوگ اس بدعت کو اپنے گھروں سے دور رکھنے میں کسی حد تک کامیاب ہوگئے۔
پھر ایک اور مرحلہ اس وقت پیش آیا جب کشمیر میں ڈوگرہ مہاراجہ کو منگل کو گائے کے گوشت کی فروخت کو ممنوع قرار دنیا پڑا حالانکہ مسلمان خود ہی پنڈتوں کا لحاظ کرتے ہوئے اس روز گوشت کھانے سے پرہیز کرتے تھے۔ اس کا ذکر مورخ والٹر لارینس نے ’دی ویلی آف کشمیر‘ میں بھی کیا اور اسے کشمیری سیکولرازم کی شاندار مثال قرار دیا۔
تقریباً ایک دہائی سے بھارت کے مختلف علاقوں میں گائے کے گوشت کی خریدو فروخت اس وقت سے اب ممنوع بنتی جا رہی ہے جب سے ہندوتوا کی حامی ریاستی سرکاروں نے گاؤکشی پر پابندی عائد کر دی ہے۔ بعض مسلمانوں کو گوشت کھانے کی سزا کے طور پر سرے بازار تشدد کا نشانہ بنایا گیا حالانکہ بھارت میں گوشت کا کاروبار اکثر ہندوؤں کے کنڑول میں ہے۔ مسلمان ممالک کو گوشت فراہم کرنے والے اکثر تاجر ہندوتوا کے سرکردہ کارکن ہیں۔
کشمیر شاید برصغیر میں واحد جگہ ہے جہاں شراب نوشی صفر رہی ہے اور شراب کی دکانیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ چند سال پہلے حکومت نے مسلح تحریک کے دوران شراب کی ایک دو دکانیں کھولنے کی جرت بھی کی البتہ محال ہی کوئی اس دکان کے قریب گزرنے کی ہمت کرتا۔
شاید اس لیے بھی کہ یہ دکانیں فوجی کیمپ کے قریب ہیں اور شہری ویسے بھی یہاں سے گزرنے میں احتیاط برتتے ہیں، پھر شرابیوں کو سنگ ساری کا خوف بھی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کشمیر میں چند سال پہلے تک منشیات کا اتنا مسئلہ نہیں تھا لیکن بعض ماہرین کے مطابق اس کو بھی معاشرے میں متعارف کرایا گیا اور نوجوانوں کی خاصی تعداد کو اب اس کی لت ڈالی گئی ہے۔ نگہت بشیر نام کی ایک کھلاڑی نے حال ہی میں الزام عائد کیا کہ منشیات فروشوں کا ایک بڑا نیٹ ورک ہے جس میں مقامی دلال اور سکیورٹی کے لوگ شامل ہیں۔
کشمیری والدین بچوں کی تعلیم اور تربیت پر اپنا سب کچھ قربان کرتے ہیں۔ نشہ خوری، شراب سے پرہیز اور طوائفوں کے اڈے کشمیری معاشرے کا کبھی حصہ نہیں رہے، پھر بھی ہر دور میں کشمیریوں کو زیر کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال ہوتا رہا۔
حال ہی میں اب یہ خبریں گشت کر رہی ہیں کہ کشمیر میں تقریباً 70 مقامات پر شراب کی دکانیں کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اس پر سوشل میڈیا میں کافی ہنگامہ کھڑا ہوگیا ہے۔ گوکہ سرکاری ترجمان نے بعد میں کہا ابھی وزارت مالیات کی جانب سے ان دکانوں کی منظوری نہیں دی گئی۔
عام تاثر یہ ہے کہ بی جے پی کی حکومت نہ صرف کشمیر کی شناخت اور مسلم کردار ختم کرنے پر ڈٹی ہوئی ہے بلکہ اس معاشرے کو برباد کرنے پر بھی تلی ہوئی ہے تاکہ اس قوم کو تاریخ کے اوراق میں دفن کر کے کشمیر قضیہ کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکے۔
بقول ایک سماجی کارکن ’حکومت کو اس بات کا بھی بخوبی علم ہے کہ ڈوگرہ دور میں محض ایک سبحان حجام تھا جس نے کشمیری معاشرے میں بدکاریوں کو روکنے کے لیے اپنی جان کی پرواہ نہیں کی تھی آج کشمیر میں 80 لاکھ سبحان حجام ان مبینہ گھناؤنی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔‘